سوشل میڈیا میں انقلاب اور پاکستان

image

وہ قومیں جو انقلابی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتیں، ان کو طاقت کے بل پر ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی روشن مثال انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب، موبائل فونز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ ہے۔ زیادہ تر پاکستانی کبھی بھی اس انقلاب کو قبول نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ وہ اپنی زندگی پرانے طور طریقوں پر گزارنا چاہتے ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ہمیں اس بات پر مجبور کیا ہے کہ ہم اس کو اپنی زندگی میں اختیار کریں۔ اب چونکہ ہم نے اس انقلاب کو اختیار کر لیا ہے اور ہم اس کا حصہ بن گئے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کے مثبت استعمال سے بحثیت قوم مستفید ہوں۔ انٹرنیٹ اور موبائل ٹیکنالوجی کے ثمرات کا اندازہ ہو جانے کے باوجود ہم اس کے صحیح استعمال تک نہیں پہنچ پائے۔ ایک اندازے کے مطابق 7 کروڑ دس لاکھ پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ 

بات یہ اہم نہیں کہ کتنے پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، بلکہ بات یہ اہم ہے کہ اس انقلاب کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت کم صارفین سوشل میڈیا کے استعمال سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس کے اصل فوائد کا بیج ابھی بویا جانا ہے۔ ہم پاکستانی اس کے حقیقی فوائد تک ابھی نہیں پہنچ پائے، جس کی بنیادی وجہ پالیسی ٹریننگ اور ڈویلپمنٹ سکلز کی عدم دستیابی ہے۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی اچھی یا بری نہیں ہوتی، اس کا استمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر تو وہ ٹیکنالوجی انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے ہے تو وہ اچھی ہے اور اگر اس سے انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے، تو وہ بری ہے۔ سوشل میڈیا کو دنیا کا ہر طبقہ اپنے فائدے کیلئے اپنے مطابق استعمال کر رہا ہے۔ ایک کثیر تعداد کا یہ ماننا ہے کہ اس نے انسان کو آزادی اظہار رائے کا حق دیا ہے، جس کی وجہ سے آج ہر بندہ اپنی ذات میں ایک صحافی بن گیا ہے۔

دوسری طرف بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سوشل میڈیا تمام صارفین کو فائدہ نہیں پہنچاتا، بلکہ کسی ایک خاص شخص یا خاص پارٹی کے حق میں یا اُس کے خلاف بولنے کیلئے ایجاد کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کو کوئی بھی عینک لگا کر دیکھا جائے لیکن یہ بات حقیقت پرمبنی ہے کہ اس کا استعمال دونوں پارٹیوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ سرمایہ دار کو بھی اور شراکت دار کو بھی، آزاد خیال کو بھی اور بنیاد پرست کو بھی، سوشل میڈیا کے ذریعے سرمایہ دار نے بہت تھوڑے وقت میں بہت زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کرکے بہت سا منافع کمایا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا ہنرمند غریب نوجوانوں کو نت نئے روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔ سوشل میڈیا کو انٹرٹینمنٹ اور رابطے کا ذریعہ بنانے کے ساتھ ساتھ غریبوں کیلئے کمائی کا ذریعہ بھی بنانا چاہیئے۔

 یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے کا کچھ طبقہ اس کے صحیح استعمال کے ذریعے ایک اچھی مقدار میں پیسہ کما رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت زیادہ تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے، جن کو اِس کے صحیح اور مثبت استعمال کا سرے سے علم ہی نہیں ہے۔ اب آتے ہیں اس آخری نقطہ کی طرف کہ آخر ان مشکلات کا حل کیا ہے، جو ہمیں اس انقلاب سے فائدہ اُٹھانے سے معزور کر رہی ہیں۔ اس کا سب سے پہلا اور موثر حل یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور ملک میں کام کرنے والی مختلف این جی اوز مل کر مختلف قسم کے پروگرامز اور ورکشاپس کا انعقاد کریں، جس سے ہمارے ملک کی نوجوان نسل میں سے ان ہنرمند لوگوں کو سامنے لایا جاسکے جو کہ آگاہی اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں۔

 اس کے ساتھ ساتھ تربیتی ورکشاپس کا بھی انعقاد کیا جانا چاہئے، جن کا مقصد نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے بارے میں آگاہی دینا ہو۔ اُن ورکشاپس میں نوجوان نسل کو یہ بات باور کرانی چاہئے کہ کیسے ہمارا ملک اور ہمارا معاشرہ اِس کے غلط استعمال سے تباہی کی طرف جا رہا ہے اور کیسے ہمارا دشمن اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے درمیان علاقائی اور مذہبی نفرت کو پھیلا رہا ہے۔ یہ باتیں ثبوت کے ساتھ نوجوان نسل کے سامنے رکھی جانی چاہئیں کہ ہم پاکستانیوں کے مابین جتنی بھی علاقائی اور مذہبی نفرتیں ہیں، یہ فطرتی نہیں ہیں، بلکہ ہم اپنی کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے دشمن کی سازش کا شکار بنے ہوئے ہیں اور کیسے ہم اس ناسور سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر ہم واقعتاً ایک مضبوط اور پائیدار معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر شعور کو اجاگر کرنا ہوگا ورنہ "لا شعور قوم، دشمن کی فوج ہوتی ہے"۔