پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجوہات اور اس کا سدِباب

image

ورلڈ بینک کے مطابق اگر کوئی شخص ایک دن میں 1.9 ڈالر سے کم کماتا ہے تو وہ انتہائی غریب ہے۔ ورلڈ بینک کی غربت کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں %37.9 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غربت کی بنیادی طور پر 4 اقسام ہیں، پہلی مطلق غربت، یہ غربت کی ایسی قسم ہے جس میں انسان زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا مثلاً کھانا، تعلیم، رہائش وغیرہ۔  پاکستان میں زیادہ تر یہ تھر (سندھ) میں نظر آتی ہے، جہاں کے لوگ انتہائی غریب ہیں۔ دوسری قسم نسبتاً غربت ہے، یہ ایک ایسی قسم ہے کہ جو تب وجود میں آتی ہے، جب ایک معاشرہ مخصوص معیارات کا تعین کر لیتا ہے اور جب کوئی شخص ان معیارات پر پورا نہیں اتر سکتا تو وہ شخص غریب نظر آتا ہے۔ تیسری قسم مواقعاتی غربت ہے، یہ قسم تب وجود میں آتی ہے، جب کسی قسم کی آفت آجائے مثلاً حال ہی میں کرونا وباء آئی تو لوگ بے روزگار ہوگئے اور نتیجتاً غربت بڑھی۔ ایسی غربت معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والی اچانک تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ چوتھی قسم نسلی غربت ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اگر غربت دو نسلوں میں رہ جائے تو اُسے نسلی غربت کہا جاتا ہے۔

انسان غریب کیوں ہو جاتا ہے؟ معاشرے کے اندر معاشی فاصلہ کیوں بڑھ جاتا ہے؟ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا یہ سب قدرت کا نظام ہے یا اس معاشی بگاڑ میں انسان کا اپنا بھی کردار ہے؟ آئیے! ان وجوھات کو دیکھتے ہیں کہ کیوں لوگ غریب ہو جاتے ہیں؟ کیوں لوگ روٹی کیلئے اپنی اولادوں کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ 

سب سے پہلی وجہ ہمارا کمزور طرزِ حکومت ہے جو کہ ہماری بیورو کریسی پر انحصار پزیر ہے۔ اسمبلی کے اندر جو بھی قانون بنتا ہے، اُس کو نافذ کرنا اداروں کا اور بیورو کریسی کا کام ہوتا ہے ۔ بیورو کریسی کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملک میں جتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوگا، ملک اتنا ہی خوشحال ہوگا۔ جب ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوگا تو حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کے قابل ہوگی۔ پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان میں صرف %35 لوگ ایسے ہیں جو کہ انکم ٹیکس دیتے ہیں، باقی %65  وہ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ہماری بیورو کریسی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کیونکہ اس کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اس ضمن میں قابلِ تحسین پیش رفت کررہے تھے، ان کے دورِ حکومت میں ہر کاروبار رجسٹرڈ ہو رہا تھا۔ اِس کا فائدہ یہ تھا کہ جو بندہ جتنا بھی کمائے گا، اس کا ریکارڈ حکومت کے پاس بھی ہوگا اور حکومت آسانی سے ٹیکس وصول کر سکے گی، لیکن بدقسمتی سے ان کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ دوسری بنیادی وجہ سیاسی غیر یقینی ہے، جیسا کہ حال ہی میں عمران خان کو اتار کر نئی حکومت بنائی گئی، جس کے باعث ابھی تک ملک میں غیر یقینی صورت حال بنی ہوئی ہے، جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب ایسی صورت حال سامنے آتی ہے تو سرمایہ کار یا تو اپنے پیسے نکال لیتے ہیں یا پھر اپنے پیسے منجمند کردیتے ہیں۔ جیسا کہ اب ہماری اسٹاک مارکیٹ کا حال ہوا پڑا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے، جب پیسے کی گردش رک جاتی ہے اور پیسہ منجمند ہو کر چند ہاتھوں میں رہ جاتا ہے۔ 

تیسری بنیادی وجہ زراعت کے شعبے میں ترقی کا فقدان ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر زمین پاکستان کے چند خاندانوں کے پاس ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زرعی زمین کا دو تہائی حصہ %5 خاندانوں کے پاس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت ہی کم لوگ ہیں جن کے پاس زرعی زمین ہے اور اِس وجہ سے پاکستان کے دیہی علاقوں میں غربت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ 

پاکستان میں غربت کی چوتھی بڑی وجہ کرپشن کا عام ہونا اور شفافیت کا فقدان ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ہر ادارہ کرپٹ سے کرپٹ تر ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق کرپشن میں پاکستان 180 ملکوں میں 140 ویں نمبر پر ہے، پچھلے سال 124 ویں نمبر پر تھا، جو کہ اب 140 پر پہنچ چکا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ جس ملک میں بدعنوانی جتنی زیادہ ہوگی، اس ملک میں غربت کی شرح اتنی ہی بڑھتی جائے گی، کیونکہ وہاں وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ طریقے سے ہوگی۔ 

غربت کی پانچویں بڑی وجہ کم شرح خواندگی ہے۔ منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی %62.3 ہے۔ واضح رہے کہ یہ %62.3 وہ لوگ ہیں جو صرف پڑھ سکتے ہیں، اگر اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی خواندگی کی تعریف کے مطابق جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی شرح خواندگی %50 سے بھی کم ہو جائے گی۔ یونیسکو کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 20 لاکھ بچے ابھی بھی سکولوں سے باہر ہیں۔ اب اتنی بڑی تعداد میں ان پڑھ لوگ ہیں اور آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، تو ایک ان پڑھ بنده اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کیسے معیشت کی اس دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے؟ 

غربت کی چھٹی بڑی وجہ بھاری بھر کم ٹیکسز ہیں۔ ٹیکس کی دو اقسام ہیں، ایک بلاواسطہ ٹیکس اور دوسرا بالواسطہ ٹیکس، پاکستان کے اندر جتنا بھی ٹیکس جمع کیا جاتا ہے اس کا %60 بالواسطہ ٹیکس سے آتا ہے۔ جس طرح آپ کے اوپر ابھی بجلی اور گیس کے ٹیکس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہ بالواسطہ ٹیکس ہے۔ دوسری قسم کے ٹیکس لوگ جمع نہیں کرواتے، جیسا کہ کوئی زمین خریدی تو اُس کے اوپر ٹیکس یا آمدنی کے اوپر ٹیکس وغیرہ اور حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کیونکہ ان لوگوں نے اپنے اثاثے چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس بات پر کہ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ تو حل بہت ہی آسان اور سادہ ہے، بس ہم میں کچھ کرنے کی جستجو ہونی چاہئیے۔ اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ ہم اپنی گورننس کو صحیح کریں، ہماری بیورو کریسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی اپنی حدود میں اتنے طاقتور ہونے چاہئیں کہ وہ اپنے اوپر کسی قسم کا سیاسی پریشر نہ آنے دیں، خاص طور پر ہمارے ٹیکس اکٹھا کرنے کا جو نظام ہے، اِس کو مضبوط کرنا چاہیئے اور یہ ایسے مضبوط ہوگا کہ ہر چھوٹا بڑا کاروبار رجسٹرڈ ہو اور وہ حکومت کی نگرانی میں ہو۔ جب کاروبار رجسٹرڈ ہوگا تو اس کے لین دین کا سارا کھاتا حکومت کے پاس ہوگا اور حکومت آسانی سے ٹیکس کا تعین کرتے ہوئے اس سے ٹیکس وصول کر سکے گی۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت کو تعلیم کے میدان میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بجٹ میں تعلیم کیلئے صرف %2.4 مختص کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا بجٹ %5 سے اوپر ہوتا ہے۔ ہماری حکومت کو اپنا تعلیمی بجٹ %5 سے زیادہ کرنا چاہئیے، کیونکہ جتنا ہم اپنے نوجوانوں اور بچوں پر خرچ کریں گے وہ اُتنے ہی قابل اور ہنرمند بنیں گے۔ سیاست کی دنیا میں جو بھونچال کچھ عرصہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے، اِس روایت کو ترک کرنا ہوگا۔ مغربی ممالک میں جو ہارتا ہے وہ جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے اور ہمارے ہاں جو بھی ہارتا ہے وہ دھاندلی کا جھنڈا لے کر سڑکوں پر آجاتا ہے۔ ہمیں ان بچگانہ حرکتوں کو چھوڑنا ہو گا اور صحیح معنوں میں ملک کی ترقی کیلئے سنجیدہ ہونا ہوگا اور یہ تب ممکن ہوگا جب ہمارے تمام اداروں میں سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور شفافیت آئے گی کیونکہ جب تک یہ 2 کام نہیں ہوتے ہمارا سیاسی نظام بھی اچھی طرح نہیں چل سکتا۔ ابھی حال ہی میں عمران خان کے چئیرمین الیکشن کمیشن پر اعتراضات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خاتمے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ ایسے ماحول میں انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف آرام سے بیٹھے گی۔ یہ چند گزارشات تھیں جو ناچیز کی ناقص عقل کے مطابق اِن مشکلات کا حل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان گذارشات میں سے کسی ایک پر بھی کام شروع کر دیا جائے تو ہم بہت ہی مفید نتائج سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ آخر میں یہی دعا کہ 

 

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے 

 

وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو 

اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔