کربلا لمحۂ فکریہ

image

اور... ذبح عظیم برپا ہوگئی۔ میدان کربلا کے تپتے صحرا میں نواسۂ رسول ﷺ نے اپنے خاندان کو حق کی سر بلندی کیلئے شہید کروا دیا۔ وہ ہستی جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ "حسینؓ مجھ میں سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں"، وہ حسینؓ جو عکس محمد ﷺ کے مصداق ہیں، وہ حسینؓ جنہیں نبی پاک ﷺ کی سواری نصیب ہوئی، وہ جرأت اور دلیری کا مجسمہ ظلم عظیم کی بھینٹ چڑھ گیا۔ واقعہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟ اقتدار کی جنگ یا حق و باطل کا معرکہ؟ یہ حساس موضوع ہے اس پر خاموشی بہتر ہے... آخر کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج صدیوں بعد بھی کچھ لوگوں کیلئے الجھن کا باعث ہیں یا پھر الجھائے جارہے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق کی آواز کبھی دب نہیں سکتی، یہ آواز گرجتے بادلوں کی طرح اندھیروں کو چیرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کربلا میں ہونے والی جبر و بربریت کو پردوں میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ یزید نہ تو ان کے باپ داداؤں میں سے تھا اور نہ اتنے عظیم کردار کا مالک کہ اس کیلئے نرم گوشہ تلاش کیا جائے، اور ایسے لوگ جو یزید کی بے گناہی کیلئے تاویلیں پیش کرتے ہیں، اگر وہ اس کے نسب سے ہیں تو منافقت چھوڑیں اور الاعلان یزید کی رفاقت کا اظہار کریں اور اس سے محبت کا پہلا قدم اٹھاکر اپنے بچوں کے نام یزید کے نام پر رکھیں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک سمجھدار حکمران تھے لیکن صرف یزید سے متعلق فیصلہ غلط ہوا! وہ فیصلہ جس نے امت محمدی ﷺ اور اولاد محمدﷺ پر حملہ کیا، اپنی حکومت کے دسویں سال ہی انہوں نے حکم جاری کیا کہ تمام گورنر یزید کی بطور ولی عہد بیعت کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس حکم کے خلاف 5 ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ ان عظیم ہستیوں میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور طلحہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے۔ اس حکم پر پہلے مفسر قرآن عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آواز اٹھائی تو اسکے پیچھے کوئی سوچ نہ تھی؟ اگر عظیم صحابہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں نے انکار کیا، تو کیا وہ انکار بے وجہ تھا؟ کیا حاکم وقت کے ذہن میں یہ نہ آیا کہ یہ کوئی عام فیصلہ نہیں بلکہ اُمتِ رسولﷺ اور دین حق کی بقا کا فیصلہ ہے؟ کیا وہ اس امر سے ناواقف تھے کہ جب کبھی حق و باطل کی بات ہوئی تو آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہونے والے صحابی نے اپنے کافر باپ پر تلوار کھینچ لی لیکن رشتے کو محبتِ رسول ﷺ پر حاوی نہ ہونے دیا؟ بہرحال اگر یہ باتیں تھوڑی سخت محسوس ہوئیں تو آئیں قرآن و حدیث کی شمع جلا کر دیکھتے ہیں۔

اللہ پاک سورہ النور میں آپ ﷺ کی شان میں فرماتے ہیں کہ "جو لوگ ان ﷺ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو (اللہ کے غضب سے) ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت پڑجائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہوجائے" اس آیت کی رو سے کیا ان سب کو آپ ﷺ کا یہ حکم یاد نہ تھا کہ "جس نے حسن و حسین سے پیار کیا اس نے مجھ سے پیار کیا اور جس نے ان کیلئے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا"۔ 

تمام مکتبۂ فکر میں صحیح بخاری کو افضل مقام حاصل ہے جس میں کتاب الفتن کی حدیث نمبر 6649 میں امر بن یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ "مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معیت میں مدینہ کے گورنر مروان بن حَکم کی مجلس نصیب ہوئی، میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ گورنر مدینہ کو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ "آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند اوباش، نوجوان لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی" مروان بن حکم نے یہ سن کرکہا کہ ایسے اوباش لونڈوں پر اللہ کی لعنت۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مروان اگر میں چاہوں تو تمھیں یہ بھی بتاسکتا ہوں کہ وہ کون کون ہیں اور کس کس کے بیٹے ہیں" امر بن یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ واقعہ کربلا کے کچھ عرصہ بعد جب میں اپنے دادا کے ساتھ شام  گیا اور وہاں کے حالات دیکھے تو میرے دادا نے کہا کہ" لگتا ہے یہ بنو اُمیہ کے وہی نوجوان لونڈے ہیں جن کے بارے میں حضور سرور کائنات ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی، اور ان کے ہاتھوں سے اہل بیت کا خون بہایا گیا ہے۔"

امام طبرانی المجم الکبیر میں حدیث نمبر 2807 میں حضرت اُم سلمیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ "آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری ہجرت کے 60ویں سال حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کردیا جائے گا۔" امام الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور ابن ابی سعید نے مسند میں فرمایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینے کے بازاروں میں چلتے ہوئے باآواز بلند یہ دعا مانگتے تھے کہ یااللہ میں 60 ہجری کا سن نہ دیکھ سکوں، اس سے پہلے ہی مجھے موت عطا فرما۔" حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اس دعا کی شرح، جلد 13 صفحہ نمبر 10 میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس کے ہاتھوں 60  ہجری میں حضور پاک ﷺ کی امت کی ہلاکت ہوئی، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا اسی ظلم عظیم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔" تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے اقتدار کی حوس حاصل کرتے ہی جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے اہم ترین اور ذمہ دار عہدوں سے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور تابعین کو معذول کیا اور ان کی جگہ نوعمر اور غیر تجربہ کار لڑکوں کا انتخاب کیا اور مسند تلقین و ارشاد پر بیٹھا کر دین حق پر ایک اور برچھا ماردیا۔

میری بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور حدیث قارئین کے گوش گزار کرنا چاہوں گا تاکہ شائبہ نہ رہے، اس حدیث کو حضرت ابو یعلیٰ نے مسند میں حدیث نمبر 871، امام بزار نے اپنی مسند میں حدیث نمبر 1284، امام بیقہی نے دلائل النبوۃ میں، امام ابن حماد نے الفتنہ کی حدیث 817 میں، امام دیلمی نے الفردوس میں، امام الحدیث حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے المطالب العالیہ میں 4466 نمبر حدیث پر اور امام علی ابن ابوبکر الحیتمی نے مجمع زوائد میں نقل کیا ہے کہ "آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا نظام چل رہا ہوگا، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص آئے گا جو دین حق کی قدروں کو پامال کردے گا اور وہ شخص بنو اُمیہ سے ہوگا جس کا نام یزید ہوگا۔" ان تمام شواہد کے بعد بھی واقعہ کربلا اور وجہ کربلا میں تشنگی کا سوال کرنا کیا کہلائے گا؟

بہرحال دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو آج ان ہستیوں کو اپنا رہبر و رہنما شمار کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ اہلبیت عظام کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ کی اطاعت دور کی بات ہے وہ لوگ ان کی دور اندیشی اور تقویٰ کا بھرم بھی نہ رکھ سکے۔ آج چند لوگ وہ کام کرنے کو فخر سمجھتے ہیں جنہیں مولا نے اپنی زندگی مبارک میں نہ صرف سخت ناپسند کیا بلکہ تاکید فرمائی کہ ہماری اقتداء میں ایسوں کیلئے کھلا پیغام ہے۔ کیا ایسے لوگ اپنے مولا سے کئے گئے وعدوں کا بروز محشر دفاع کرسکیں گے؟ کیونکہ شراب تو یزید کا پسندیدہ مشروب تھا جس نے کربلا میں بھی اسے نہیں چھوڑا، زنا کو گناہ تصور نہ کرنا تو یزید کا عَلم تھا، انا کے چنگل میں تو یزید پھنسا رہا، خود پسندی، عقل کُل، طاقت کا نشہ تو یزید کا خاصہ تھا! ہم اپنا محاسبہ کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اپنی آنکھوں سے پٹی کھولیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ نام حسین علیہ السلام کا لے کر عمل یزید جیسا، کس طرف اشارہ ہے؟