مسئلہ کشمیر پر مشاهداتی خاموشی جرم ہے

image

گیارہ اپریل 2022ء کو پی ڈی ایم نے پاکستان کا چارج سنبھالا تو میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم جبکہ بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ بنے۔ چارج سنبھالنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو نئے سرے سے اٹھائے گی اور بھارت کے 5 اگست 2019ء کے مجرمانہ اقدام کے بارے میں بات کرے گی، لیکن چار مہینے گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک نا تو حکومت نے بھارت کے ساتھ کسی قسم کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا اور نا ہی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی فورم پر اس مسئلہ کے بارے میں آواز اٹھائی گئی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی عالمی سطح کے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کر چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انھیں اس مسئلہ پر بات کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اسی طرح وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی طرف سے بھی مسئلہ کشمیر  پر کسی قسم کا بیان نہ آنا قابل افسوس اور تشویشناک بھی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر موجودہ حکومت کی مجرمانہ خاموشی اس حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

یہ بات یاد کراتا چلوں کہ میاں محمد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کشمیر کے مسئلہ کے مقروض ہیں۔ جولائی 1972ء کو بلاول بھٹو زرداری کے نانا، ذو الفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس دوطرفہ معاہدے میں یہ کہا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا اور اسی معاہدے کے نتیجے میں آج کی موجودہ لائن آف کنٹرول بھی لگائی گئی۔

اکیس فروری 1999ء کو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لاھور میں انڈین وزیر اعظم اٹل بہار واجپائی کے ساتھ ایک اور دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں بھی یہی کہا گیا کہ خطے میں امن و استحکام کیلئے کشمیر کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے گا۔ اس اعلامیے میں بھی کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں بلکہ شملہ معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے حل کیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ میں جمع کرائی گئی کئی قراردادوں میں یہ بات واضح طور لکھی گئی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے گا، یعنی کشمیری خود فیصلہ کریں گے کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان یا انڈیا کے ساتھ رہیں گے۔

سترہ اکتوبر 1949ء کو بھارتی قانون ساز اسمبلی میں گوپال سوامی آیا نگر نے ایک بل پیش کیا، جس کا نام آرٹیکل 370 تھا۔ اس بل پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ بھارتی حکومت اِس بات کی پابند ھے کہ وہ کشمیریوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُنھیں خود فیصلہ کرنے دے کہ آیا وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہم سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ حالات جیسے ہی معمول پر آئیں تو بھارتی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کشمیر میں اس کو استصواب رائے کرائے تاکہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ اُن کی خواہش کے مطابق کیا جا سکے۔

گوپال سوامی کے اِس خطاب میں یہ بات واضح ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق ان کی خواہش کے مطابق دیا جانا تھا، لیکن پھر 26 جنوری 1950ء کا وہ دن آتا ہے، جب انڈیا کا آئین پیش کیا گیا۔ اس آئین میں آرٹیکل 370 کو بھی شامل کر دیا گیا، جس سے کشمیریوں کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ اس آرٹیکل میں مزید یہ کہا گیا کا کشمیر بھارت کا ایک یونٹ ہے اور اس کی اپنی ایک اسمبلی اور اپنا جھنڈا ھوگا اور وہ اپنے قوانین خود بنائیں گے۔

پانچ اگست 2019ء کو ایک صدارتی حکم کے تحت کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اپنے تین روزہ امریکی دورے پر موجود تھے، جس میں ان کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی ان کے ساتھ تھے۔ کچھ لیک شدہ معلومات میں یہ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو امریکی حکام کی جانب سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ کشمیر میں کیا ہونے جا رہا ہے اور اُنھیں خاموش رہنے کی بھی تنبیہ کی گئی۔

پاکستان کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو اُسکے اپنے کیے گئے وعدے یاد کروائے، جس میں کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا تھا ۔ پاکستانی حکومت بھی بھارتی حکومت کو 1972ء کا شملہ معاہدہ اور 1999ء کا لاہور کا معاہدہ یاد کروائے اور کشمیر کے مسئلے پر بات چیت شروع کرے۔ کشمیری عوام کی موجودہ حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا ایک جرم ہے جس کا ہم ارتکاب کر رہے ہیں۔