سیلاب کیوں آتے ہیں؟

image

وطنِ عزیز کو کچھ دن قبل ایک خوف کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تباہ کن سیلاب کی شکل میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں، 10 لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوگئے ہیں اور صرف بلوچستان میں 7 لاکھ ایکڑ پر لگی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ یہ تمام نقصان ایک ایسے ملک میں ہو جائے جس کے حکمران قرض ملنے پر خوش ہوجاتے ہیں تو ہر بندہ آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے اثرات کتنے شدید ہونگے اور کتنی دیر تک رہیں گے۔ 

ایک اندازے کے مطابق ملک کا 60 سے 70 فیصد حصہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ بلوچستان، گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب، سندھ، آزاد کشمیر اور کے پی کے میں سیلاب نے بہت زیادہ تباہی کی ہے۔ خصوصاً جنوبی پنجاب اور کے پی کے کے علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ کیا یہ سیلاب قدرتی آفت تھی؟ خدا کا عذاب اور ناراضگی تھی؟ جس کی وجہ سے ہمارا اتنا نقصان ہوا یا ان کے پیچھے ہماری پلاننگ کا نہ ہونا تھا؟ کیا ہمارے حکمران اس نقصان کو قدرتی آفت کہہ کر اپنی مس منیجمنٹ پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ آج کے اس مضمون میں ہم سیلاب کی وجوہات اور ان سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔ 

سال 2022ء میں پورے پاکستان میں عمومی شرح سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ سندھ میں %784 زیادہ بارش ہوئی ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح %500 رہی۔ جنوبی پنجاب اور کے پی کے میں صورتحال تھوڑی مختلف تھی۔ ان علاقوں میں سیلاب بارش کی وجہ سے نہیں آئے بلکہ مئی اور جون میں بہت زیادہ گرمی پڑنے کی وجہ سے جو گلیشئرز ہیں، وہ پگھلے ہیں اور ان کی وجہ سے دریاؤں، نہروں اور ندی نالوں میں سیلاب آیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ بارشیں کیوں ہوئی ہیں یا اتنی زیادہ گرمی کیوں پڑی؟

اس گرمی اور زیادہ بارشوں کے پیچھے ہمارے موسم کے پیٹرن کا تبدیل ہونا ہے۔ پاکستان میں درجۂ حرارت کے اندر جو اضافہ ہوا ہے، وہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اب جتنی زیادہ گرمی ہوگی اتنے ہی زیادہ بخارات سمندوں اور دریاؤں کے پانیوں سے اٹھیں گے اور جتنے زیادہ بخارات اٹھیں گے اتنی زیادہ بارشیں ہونگی۔ اِس شدید گرمی کے پیچھے کی وجوہات بھی ہماری اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ہمارا جنگلات کا بے دریغ کاٹنا، کاربن کا بہت زیادہ استعمال اور فصلوں میں کھادوں کا استعمال، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہماری زمین کے ٹمپریچر بہت بڑھ گیا ہے۔

سیلاب کے آنے کی وجوہات میں سے ایک اور بڑی وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔ گلیشیئرز ہمارے شمالی علاقہ جات میں تازہ پانی کے ذخائر میں جو برف کی صورت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب جیسا کہ ہماری زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے تو ان گلیشیئرز نے بھی پگھلنا شروع کر دیا ہے جن کے حالیہ نتائج ہم نے کے پی کے میں دیکھے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق 2050ء تک پاکستان میں جتنے بھی  گلیشیئرز ہیں، وہ سب پگھل جائیں گے۔ اب یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت سیلاب کی کیا صورتحال ہو گی اور اُس وقت کیلئے ہم نے کیا تیاری کی ہے۔

یہ وہ چند  وجوہات تھیں جن کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک باشعور انسان ہونے کے ناطے یہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں پر کہیں بھی نہیں لگ رہا کہ یہ قدرتی عذاب یا مصیبت ہے۔ اس سارے معاملے کے پیچھے ہماری اپنی غلطیاں اور کم عقلی ہے۔ پاکستان کی %80 سے زائد توانائی فوسل فیولز کو جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔ اب ان فوسل فیولز کے جلنے سے بہت سی زہریلی گیسیں پیدا ہوتی ہیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ شامل ہیں۔ یہ گیسیں زمین کے تھوڑا اوپر ایک اپنا غلاف بنا لیتی ہیں۔ سورج کی طرف سے آنے والی شعاعیں ان سے گزر کر زمین سے ٹکرا تو جاتی ہیں لیکن واپس نہیں ہو سکتیں، جس کی وجہ سے ہماری زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

پانی، سورج اور ہوا سے دنیا کی سستی ترین بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن ہماری سخاوت کا اندازہ یہیں سے لگا لیجئے کہ تھرمل بجلی دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہے اور پاکستان کی تقریباً ساری بجلی اسی طریقے سے حاصل کی جاتی ہے ۔ سیلاب کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے ہماری سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم 70 سال سے اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے یا نہیں؟ ہم اور ہمارا پڑوسی ملک (انڈیا) اکٹھے ہی آزاد ہوئے تھے لیکن انڈیا اب تک چھوٹے بڑے 4300 ڈیم بنا چکا ہے اور ہم نے ابھی تک 150 ڈیم بنائے ہیں۔ خدارا! اس ملک کے ساتھ مزید کھلواڑ مت کریں اور اپنے سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اس پر سنجیدگی سے کام کریں ورنہ 

تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں