پاکستان کی سیاست کا اونٹ کس اوڑھ بیٹھے گا؟

image

ہمارا ملک اعتماد اور اعتبار کے ایک ایسے بحران کی طرف جا رہا ہے جہاں کسی ادارے اور شخص کا اعتبار باقی نہیں رہا۔ یہاں ایک بحران ختم ہونے کے آثار پیدا ہوتے ہیں کہ نیا بحران سر اٹھانے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت اور آمریت ذاتی مفادات کا کھلونا بن چکی ہے، جہاں ہر لیڈر، پارٹی اور ادارہ خود کو درست محب وطن اور دوسرے کو غلط بلکہ غدار کہتا پھرتا ہے اور اس ابتر صورتحال کے ذمہ دار پاکستان کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقے بھی ہیں۔ پاکستان میں یا پاکستان کے بارے میں ضرور کوئی بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے، ایک دھندلکا ہے لیکن اس کے باوجود آثار بتا رہے ہیں کہ کہیں کوئی بڑی بساط بچھی ہے جس کے کھلاڑی بہت جلدی میں ہیں۔

سیاست کو کیا رخ دیا جارہا ہے اور کس کی طرف سے دیا جا رہا ہے سب کو نظر آرہا ہے۔ عمران خان کو ایک بڑی اکثریت سے لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، ان سے ایک بڑا فیصلہ کروایا جانا ہے جس کے لیے امریکا کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ سعودی عرب اس فیصلے کے لیے تیار ہے لیکن تنہا نہیں پاکستان کے ہمراہ۔ عمران خان جدید پروپیگنڈہ تیکنیک کے جس اعلیٰ درجے کے ماہر ہیں اور عوام کے جذبات اور خیالات کارخ موڑنے اور ان سے کھیلنے کا فن جانتے ہیں۔ عمران خان کے سوا یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی ادارے اور کسی بھی شخصیت حتیٰ کہ آرمی چیف کے بارے میں بھی بدزبانی کریں سب گوارا، فارن فنڈنگ کیس ہو، توشہ خانے کا معاملہ ہو یا آئین شکنی، عمران خان کے بارے میں کہیں غصہ اور ناراضگی نظر نہیں آرہی، اسٹیبلشمنٹ سے لے کر عدالتوں تک سب مہربان ہیں۔ دوسری طرف زرداری صاحب کی نظر عام الیکشن میں مطلوبہ نتائج پر ہے اور وہ اگلے عام الیکشن میں پنجاب میں مناسب حد تک سیٹیں اور کامیاب نمائندگی چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب کا دوسرا ہدف بلاول زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز دیکھناہے جبکہ قومی و عالمی مقتدر اشرافیہ کی پہلی ترجیح عمران خان ہے جس کو اپنوں کے خلاف بولنے کی اجازت بھی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف تو پہلے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں کہ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر مسلم لیگ (ن) کی حقیقی قیادت یعنی میاں نواز شریف اور ان کے قریبی مشیر یہ رائے رکھتے ہیں کہ مخلوط حکومت چھوڑ کر نئے انتخابات ہی مناسب راستہ ہے۔ اس لیے کہ معاشی تباہی کے منفی سیاسی اثرات مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے سے قبل ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ پاکستانی معیشت اور عالمی معیشت کا شعور رکھتے ہیں اور انتظامی اہلیت سے مالا مال ہیں لیکن 6 ماہ کی کارکردگی کے بارے میں ان حلقوں میں بھی مایوسی پیدا ہوگئی ہے جو ان سے توقع رکھتے تھے۔ پاکستان میں ڈالر کی خرید و فروخت بینکوں کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، جو معیشت پر خودکش حملے کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستانی جمہوریت عوام سے دور، خواص کے ذریعے اور خواص کے لئے ہے، جہاں عوام روز بروز ابتری اور بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے پاکستان سے الگ ہونے کے وقت سمجھا جاتا تھا کہ بنگالی صنعت اور حرفت اور معیشت کے میدان میں ہم سے کمزور ہیں اور انہیں ہمیشہ ہم پر بوجھ سمجھا جاتا تھا اور اسی انداز میں ان کو پیش کیا جاتا تھا، لیکن آج اگر ہم دیکھیں تو وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے اور ہمارے لیے شرمندگی کا مقام بھی ہے۔ بنگلہ دیش کی بیرونی آمدنی 100 ارب ڈالر کے قریب ہے، وہاں انصاف کا بول بالا ہے اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کوئی بھی سیاسی مجمعے نہیں لگے ہوئے۔ یہ ان کے کامیاب نظام کی نشانی بھی ہے اور اس سے ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ تحریک پاکستان کے پرعزم عوام نے ایسے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ذریعے عالمی اور علاقائی طاقتوں مثلاً برطانیہ اور ہندو کانگرس کے خلاف لازوال جدوجہد سے ریاست حاصل کی، مگر آج عالمی اتحادی طاقتیں اور ادارے پاکستانی ریاست کا نظام اور انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان عالمی سیاست کا مرکز اور تجارت کی عالمی راہداری ہے، لہٰذا عالمی اور علاقائی طاقتیں پاکستانی ریاست کا نظام اور انتظام اپنی گرفت میں رکھنے کے خواہاں ہیں۔ آج پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور آمریت ایک چوراہے پر کھڑی ہے، المیہ یہ ہے کہ سیاستدان ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، ماضی بعید کو تو چھوڑیں ماضی قریب میں اپنے ہی ہاتھوں پروان چڑھائے بحرانوں سے نمٹنے میں شدید ناکامی کے باوجود تحمل، برداشت، رواداری اور جہد مسلسل جیسے اخلاقی اسباق سے دور ہیں۔

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور غیر جمہوری طریقے سے پچھاڑنے کے لیے ہر حربہ آزمانے کو تیار ہیں، جمہوری اور اخلاقی اقدار انتہائی انحطاط کا شکار ہیں، معاملہ زبان درازی سے ہوتا ہوا دست درازی تک پہنچ چکا ہے، اب تو بد اخلاقی میں مرد و زن کا فرق بھی مٹ چکا ہے، خواتین و مرد کے ایک دوسرے پر زبان کے نشتروں سے روحیں تک گھائل ہو چکی ہیں، پارلیمان جیسے مقدس ادارے کے اندر کھڑے ہو کر انتہائی گھٹیا و فحش اشارے اور ذومعنی جملے معمول بن چکے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ منزل کی جانب بڑھ رہے تو یقین کیجیے آپ غلط فہمی کا شکار ہیں، اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر رہے ہیں۔