موسمیاتی تبدیلی، پاکستان کیلئے بڑھتا ہوا خطرہ

image

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کو درپیش خطرات میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ہماری زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کے اثرات نہ صرف انسانی زندگی اور معیشت پر پڑ رہے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے اور خشک سالی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2017ء میں جرمن واچ کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن پہلے 10 ممالک میں شامل تھا جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان 1997ء سے 2016ء تک 3.6 بلین ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسی دورانیہ میں ہر سال 5231 افراد زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔

 پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اِس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرات میں پہلا خطرہ دُھند ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق دُهند بالعموم پاکستان اور بالخصوص لاہور کا پانچواں موسم بنتا جا رہا ھے۔ دُھند کی وجہ سے حد نگاہ میں کمی، روزانہ کی روٹین میں خرابی، اور حادثات میں اضافے کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ ہوا کی آلودگی کی وجہ سے دنیا میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں جن میں سے 42 لاکھ اموات حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

دوسرا بڑا خطرہ بارشوں کے اوقات کار کا ڈسٹرب ہونا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی خوراک کی کوالٹی اور دستیابی میں خلل ڈال رہی ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے اوقات کار میں تبدیلی اور ان کے نتیجے میں پانی کی کمی فصلوں کی پیداوار میں بہت بڑی کمی کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان میٹرو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان میں بارشوں کے اوقات کار بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھار حد سے زیادہ بارشیں اور کبھی خشک سالی زراعت کے شعبے کو سنگین بحرانوں میں لیکر جا رہی ہے۔ 

جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درجۂ حرارت کے اندر اضافہ ہوا ہے تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں جمے ھوئے گلیشئرز کے پگھلنے کے خطرات بھی دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے دریائے سندھ کا زیادہ تر پانی گلیشئرز کے پگھلنے سے آتا ہے جس سے پاکستان کی زراعت کا 20 فیصد حصہ سیراب ہوتا ہے۔ پاکستان کے روزگار کا 42 فیصد حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ اب درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور نتیجتاً ضرورت سے زیادہ گلیشئرز پگھلنا شروع ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں سیلاب اور طوفان آنے لگ گئے ہیں اور آخر کار ہماری زراعت کا شعبہ تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات میں ایک اور بہت بڑا خطرہ جنگل کی آگ ہے جو کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں یا قدرتی طور پر، دونوں صورتوں میں لگ سکتی ہے۔ چونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل  ہے اور اس کو کنٹرول کرنے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں تو ایسی صورت میں ایسے خطرات کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین مثال بلوچستان کے کوۂ سلیمان کے جنگلات میں لگنے والی آگ ہے جو کئی روز تک جاری رہی، اس کے نتیجے میں 30 لوگ جاں بحق ہوئے جبکہ 4 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

اس شدید نقصان دہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستانی حکومت نے ماضی میں کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں پہلا کلین انرجی پروجیکٹ ہے۔ آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ فیڈرل حکومت کے زیرِ اہتمام ایک ایجنسی ہے، (جو 2003ء میں بنائی گئی تھی) اس ایجنسی کا بنیادی مقصد پاکستان میں انرجی کی پیداوار کو فوسل فیولز سے ہٹا کر سولر انرجی کی طرف لیکر آنا تھا۔ اس ایجنسی نے 2015ء میں پاکستان کا پہلا "قائد اعظم سولر پارک" لگایا جس سے پیدا ہونے والی انرجی ڈائریکٹ نیشنل گرڈ میں جاتی ہے۔

اس کے علاوہ کے پی کے حکومت نے 2017ء میں بلین ٹری سونامی کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد 3 لاکھ 50 ہزار ہیکٹر رقبے پر درخت لگانا تھے۔ یہ اس موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک زبردست اقدام تھا اور اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے 2018ء کی فیڈرل حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ پورے ملک میں 10 بلین درخت لگائے گی، جو کہ 60 لاکھ ہیکٹر کے اضافی رقبے پر ہوگا۔ جنگلات موسمیاتی تبدیلی کو قابو کرنے کیلئے بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف فضا سے کاربن کھینچ لیتے ہیں بلکہ مضرِ صحت گیسز کے اثرات کو بھی بہت حد تک کم کر دیتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ ایک ملک کبھی بھی نہیں لڑ سکتا۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کو عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔ 2015ء کے پیرس ایگریمنٹ میں تمام ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کو مانا اور ہوائی آلودگی اور مضر صحت گیسز کی پیداوار میں کمی کا عہد کیا۔ اقوامِ متحدہ کی 2020ء کی رپوٹ کے مطابق بہت سارے ممالک اپنے کئے گئے وعدوں میں پیچھے ہیں۔ اُس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2030ء میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2017ء کی نسبت 25 سے 55 فیصد کمی لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والے عالمی ماحولیاتی ایجنڈے کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عالمی ماحول کو آلودہ کرنے میں جن ممالک نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے، ان کو اِس کے تدارک کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔