ثقافتی ورثہ

image

معاشرہ اپنی جداگانہ روایات تہذیب وتمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی خطے، قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخی ترجمان ہوتی ہے۔ بلکہ کوئی بھی معاشرہ اپنی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا۔ ہر سال 18 اپریل کو عالمی سطح پرثقافتی ورثے کا دن منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی مختلف قدیم تہذیبوں اور آثار قدیمہ کو محفوظ بنانا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ 

پاکستان اس اعتبار سے ایک انمول ریاست ہے جہاں ہڑپہ، موہنجوداڑو، مغلیہ اورگندھارا تہذبوں کے آثار ملتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے تاریخی وتفریحی مقامات موجود ہیں جو ہر کسی کا دل موہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو پاکستان کے چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرچکا ہے۔ ان چھ مقامات میں موہنجوداڑو، تخت بھائی کے کھنڈرات، شاہی قلعہ، شالامارباغ لاہور، مکلی کا قبرستان اور جہلم کا قلعہ روہتاس شامل ہیں۔

ہماری ثقافت کے خدوخال کو سنوارنے میں جہاں وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، شاہ عبدالطیف، اقبال اور فیض احمد فیض کا بہت کردار رہا ہے، وہی پر معین الدین چشتی، میر اور غالب کے افکار بھی اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا لیکن پاکستانی کلچر کی بنیادوں میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے شعر وادب اور ذوقِ جمالیات کو سنوارنے میں حافظ، سعدی اور رومی نے جوکردار ادا کیا اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟

 الغرض ہماری ثقافت کی جڑیں اپنی آفاقیت کے باوجود اس دھرتی میں پیوست ہیں۔ اس سرزمین پر علم و ثقافت، فکر ونظر اور حکمت و دانش کے جو کاروان گزرے ہیں، ہم ان کے وارث ہیں اور اس سر زمیں پر بسنے والے انسان کے حصہ میں تاریخ کی صبح سے لے کر آج تک جو کامیایباں، ناکامیاں، دکھ درد اور مسرتیں آئی ہیں یا اس نے اپنے اندرونی احساسات کے اظہار کیلئے دیر و حرم میں جو درد ناک صدائیں بلند کی ہیں اور کائنات کے حسن وجمال سے مسحور ہو کر بے اختیار خدا کی حمد وثنا میں ملکوتی نغمے بکھیرے ہیں، یہ سب کچھ ہماری میراث ہیں۔ اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کا گہرا شعور ہمیں ایک صحت مند اور با وقار زندگی بسر کرنے کا حوصلہ اور ولولہ عطاء کرتا ہے۔ 

عالمی سطح پر یہ دن ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثے کا تحفظ کریں اور اس کو حقیقی طور پر سمجھیں اور اس کا احترام کریں صرف سیر و تفریح تک محدود نہ رکھیں۔ ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنے اداروں میں پاکستان کی تہذیب و ثقافت پر مختلف پروگرامز کا انعقاد کروایں اس طرح نوجوان نسل میں اس دن کی اہمیت اور ہماری حقیقی ثقافت کا شعور اجاگر ہو گا،حکومتی سطح پر بھی اس دن کو باقاعدہ طور پر منانے اور مسلم و پاکستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ کیلئے خاطر خواہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے، یہی ثقافتی ورثہ ہماری بقا اور ہماری پہچان ہے اسی ورثے کی بدولت ہماری شناخت ہوتی ہے کیونکہ وہی قومیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرنا جانتی ہوں۔