مسلمان اپنی میراث گنوا بیٹھے

image

آج کے دور میں لفظ ”کتاب“ کو مختلف معنوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اوراق کے مجموعے کو جلد کی شکل میں رکھا جائے، لکھے ہوئے اوراق کو اکٹھا کر کے پشت سے سی دیا گیا ہو، ایک ایسی تصنیف جو ہاتھ سے لکھی گئی ہو یا چھاپی گئی ہو اور وہ ایک یا ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہو، اس کو کتاب کہا جاتا ہے۔ لفظ کتاب کو مختلف آراء سے پیش کیا گیا ہے لیکن عام طور پر اسے ”برچ ٹری“ سے ماخوذ کیا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں لفظ بُک پڑھا جاتا ہے جو قدیم انگلش ”بُوک“ کو ظاہر کرتا ہے اور برچ ٹری کے معنی میں مستعمل ہے کیونکہ انگریزی مبلغین اپنی تحریریں درخت کی چھال پر لکھتے تھے، غالباً اسی وجہ سے یہ لفظ بُوک کہلایا۔

قدیم زمانے میں اوراق نہیں ہوتے تھے، بہت مشکل سے مواد کو اکٹھا کیا جاتا تھا، درخت کے پتوں کو تلاش کر کے اس پر تحریر لکھی جاتی تھی، کچھ اس طرح بھی کہا گیا ہے کہ مصنفین اپنی تحریریں پہاڑوں پر بھی لکھا کرتے تھے۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری طور پر دورِ مبارک شروع ہوا تو اس وقت کھجور کے پتوں پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ لکھی جاتی تھیں، بعد میں آہستہ آہستہ قرآن پاک اوراق میں تبدیل کیا گیا۔ مسلمان کتاب لکھنے پڑھنے کے ماہر تھے، اپنے اباٶ اجداد کی کتابوں کا خاص خیال رکھتے تھے لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا، یا غفلت کا شکار ہو گئے۔

مسلمانوں کے پاس جتنی کتابیں تھیں تمام کی تمام غیر مسلموں نے اپنے قبضے میں لے لیں، مسلمانوں کی انتھک محنت پر قابض ہو گئے، جب مسلمانوں کے پاس یہ سرمایہ تھا، اس وقت مسلمان عروج پر تھے کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ کوئی بھی میلی آنکھ سے انہیں دیکھے، جب کتابیں چِھن گٸیں تب سے مسلمانوں پر زوال شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کی تحریر کی ہوئی کتابیں اغیار نے حاصل کر لیں۔ مسلمانوں کے پاس بے شمار لائبریریاں ہوتی تھیں، ہر وقت مطالعہ اور ریسرچ میں مصروف ہوتے تھے، اب نام نہاد لائبریریاں ہیں لیکن آباٶ اجداد کا مواد نہیں ہے، وہ مواد نہیں ہے جو نوجوانوں کو حقیقی ہیرو بنا دیتا تھا۔

حالیہ دور میں جب مسلمان یورپ یا غیر مسلم ممالک میں جاتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے، ان کی آنکھوں میں پانی آجاتا ہے، دل سیپارا ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے اسلاف کی کتابیں وہاں موجود ہوتی ہیں، مسلمانوں کی قربانیوں کا فائدہ وہ اٹھا رہے ہیں۔ اب مسلمانوں کی لائبریریوں کا نام و نشاں بھی باقی نہیں رہا، وہاں کی لائبریریاں مشہور و معروف ہو گئی ہیں جو پوری دنیا میں جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے ہمارے آباؤ اجداد کی کتابوں پر مزید ریسرچ کر کے بے شمار کتابیں تیار کر لی ہیں جن کی تعداد بتانا بھی ناممکن ہے، ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ہم نے کتاب کو چھوڑ دیا ہے اپنے آباٶ اجداد کی میراث کو بھول گئے ہیں، کتاب کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں، تحقیق نہیں کرتے، ہماری تو بنیاد ہی کتاب ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ترقی کیسے کریں گے؟ زوال کا دور کیسے ختم کریں گے؟ تمام مسلمانوں کو یکجا ہو کر سوچنا چاہئیے، سب سے پہلے کتاب کو اپنا دوست بنا لیں، کتاب سے محبت رکھیں، عشق کریں، مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ زندہ کریں، جب مسلمان اپنی بنیاد کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے تو کوئی بھی طاقت مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ ہمیں چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ لائبریریاں بناٸیں، لائبریریوں میں ایسی کتابیں موجود ہوں جن میں اچھا مواد ہو، ہمارے نوجوان ان کتابوں کا مطالعہ کریں، ریسرچ کریں، ہمیں غیر مسلم سے ایک قدم آگے سوچنا ہوگا، پھر جا کر ہم ان کا مقابلہ کر سکیں گے، پھر ہم اپنے آباؤ اجداد کی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کر سکیں گے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحب فرماتے ہیں: 

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے

 وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

 تجھے پالا ہے اس قوم نے آغوش محبت میں

 کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

 تمدن آفریں خلاق آٸینِ جہاں داری

 وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا

 حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

 نہیں دنیا کہ آئینِ مسلم سے کوئی چارا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

 مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

 تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا

 مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

 جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

 گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

 ثریا سے زمین پر  آسمان نے ہم کو دے مارا