صنف آہن

image

دنیا کی نصف سے کچھ زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ ہر دور میں خواتین کی اہمیت ہر طرح سے لازم و ملزوم رہی ہے۔ افراد خانہ کی پرورش سے لے کر کھیتوں کھلیانوں میں ہل چلانے تک خواتین پیش پیش رہی ہیں۔ گو کہ بعض اوقات صنف نازک کو بدترین اور متشدد دور سے گزرنا پڑا، تاہم اس کے باوجود بھی ان کی اہمیت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی تمام مروجہ اقسام کے باطل اور غیر مساوی رسم و رواج کا خاتمہ ہو گیا۔ عورتوں کی خدمات اور اہمیت کی وجہ سے ہر سطح پر ان کی پذیرائی کی گئی۔

حقوق و فرائض کی حدود کے تعین کے ساتھ زندگی کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں چونکہ زیادہ تر افراد کا ذریعہ معاش زراعت سے منسلک ہے۔ اسی لئے زیادہ تر خواتین امور خانہ کی انجام دہی کے بعد کھیتوں میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی آئی ہیں۔ دور جدید میں جہاں عورتوں کو مساوی حقوق دستیاب ہیں، وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارنامے سر انجام دے رہی ہیں۔ آج کی پڑھی لکھی خواتین بڑے بڑے ادارے چلا رہی ہیں۔ آج عورت بینکر بھی ہے، اسکول کی پرنسپل بھی، آج عورت پولیس آفیسر بھی ہے اور وفاقی وزیر بھی، آج عورت وکیل بھی ہے اور جج بھی، مختصر یہ کہ جس جس شعبے میں خواتین کو حصہ ملا انہوں نے اپنا آپ ثابت کر کے دکھایا ہے۔

پاکستان کی مجموعی آبادی کا تقریباً 52 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی خواتین کو مناسب حقوق دستیاب نہیں ہیں۔ ہمیں تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ کوٹہ سسٹم کی بجائے میرٹ پر داخلوں اور ملازمتوں کی طرف جانا چاہئیے۔ ہمارے دیہی علاقوں میں گو کہ شعور کی بڑی لہر جنم لے چکی ہے مگر کہیں کہیں ابھی بھی وراثتی حقوق سے محروم عورت اپنے مستقبل سے نالاں نظر آتی ہے۔ جہاں ورکنگ وومن ایمپاورمنٹ پر بات ہوتی ہے، جہاں جی بھر کے اس کے فوائد پر بات ہوتی ہے وہیں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ خواتین جب امور ملازمت میں مصروف رہیں گی تو امور خانہ بہت زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داری بھی شائد راہ دیکھتی کھڑی رہ جائے۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان میں اور محترمہ بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی اور پاکستانی سیاست میں اپنا بہترین کردار ادا کیا۔ جدید سیاست میں کتنی ہی خواتین ہیں جو بذات خود اپنی سیٹیں جیت کہ اسمبلی میں آئی ہیں۔ پائلٹ آفیسر مریم ہو یا بلقیس ایدھی، سبھی خواتین اپنے اپنے شعبوں میں خوب داد تحسین وصول کر چکی ہیں۔ لیڈی ڈیانا نے جس طرح مریضوں کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی، وہ جذبہ واقعی قابل قدر ہے۔ آج پاک فوج میں ایک خاتون فور اسٹار جنرل کے عہدے پہ موجود ہے۔

نجی ادارے کی جانب سے کئے گئے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ خواتین آفیسرز مرد آفیسرز کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ادارہ چلا سکتی ہیں۔ سرکاری شعبے میں خواتین آفیسرز زیادہ ذمہ داری سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی ہیں۔ کرپشن اور رشوت خوری کے واقعات بھی بہ نسبت مرد حضرات کم پیش آتے ہیں۔ ورکنگ دباؤ برداشت کرنا اور خوش اخلاقی 2 ایسے فیکٹر ہیں جو خواتین کو زیادہ ممتاز کرتے ہیں۔ 

ورکنگ وومن کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے مختلف این جی اوز سرگرم عمل ہیں۔ اکا دکا واقعات کے علاؤہ زیادہ تر ان تنظیموں کا کردار صرف مظاہروں تک ہی محدود ہے۔ ورکنگ وومن کیلئے ملازمت کے ساتھ گھر کی بھاری ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ وہ ہسپتالوں میں نرسنگ کے ساتھ ساتھ گھر میں بطور ماں بھی ڈیوٹی انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ ہفتہ وار تعطیل کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی آورز میں کمی اور بونس میں اضافے کے ذریعے ان بہادر خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔