خفا پر عطاء، شرط ندامت

image

آج 25 دسمبر ہے یعنی یومِ ولادت بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ ہے۔ قائدِ اعظم وہ باہمت شخصیت تھے جنہوں نے ایک گولی چلائے بغیر دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقتوں سے اپنا حق یعنی آزاد مملکت حاصل کی۔ آج جب ہم اس مملکتِ خداد پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہیں تو خود کو بابائے قوم قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سامنے شرمسار پاتے ہیں کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ’’انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔‘‘ (قانون ساز اسمبلی 11 اگست ، 1947ء)۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف خود کو اپنے محسنین سے جدا کیا بلکہ ان کے رہنماء اصولوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی جو کہ ہماری تباہی کا باعث بنی۔ آج نہ تو ملک میں انصاف کا راج ہے اور نہ ہی مساوات نام کی کوئی چیز موجود ہے، امیر اور طاقتور کے پاس ہی سارے اختیارات ہیں جو چاہیں، جیسے چاہیں کر سکتے ہیں۔ عدل و انصاف سے معاشرے ترقی کیا کرتے ہیں، جب کسی عمارت کی تعمیر کے بنیادی اجزائے ترکیبی میں ہی ردو بدل کر دی جائے تو اس کی مضبوطی کا کون ضامن ہوسکتا ہے؟ 

قائدِ اعظم نے ہمیں بطور قوم ایک نسخۂ کیمیاء عطا کیا تھا جس پر عمل پیرا ہوکر ہم دنیا پر راج کر سکتے تھے، ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے۔‘‘ (28 دسمبر 1947ء)۔ سب سے پہلا نکتہ اتحاد، مطلب ایک ہونا تھا، ہم اپنے مقصد میں ایک ہوتے بقول حکیم الامت حضرت ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ: 

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

جب تک ہمارا مقصد (دعوتِ الی اللہ) ایک تھا ہمارا نفع بھی سانجھا تھا، اگر کہیں مسلمانوں کو فتح ملتی یا وہ اللہ کی معرفت کا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوتے تو ساری امت اس پر نازاں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر کہیں مسلمانوں پر سختی یا مشکل آتی تو ساری امت مسلمہ اس کا دکھ محسوس کرتی۔ قائد اعظم کا دوسرا نکتہ یقینِ محکم، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہونا کہ تمام تر طاقتیں اس کے پاس ہیں اور اس کے علاؤہ کوئی ہمیں نہ عزت دے سکتا ہے نہ ذلت، نہ زندگی نہ موت۔ تیسرا نکتہ تنظیم ہے، جو ہمیں منظم کرتا ہے ایک جگہ اکٹھے ہونے کو رش یا بِھیڑ کہتے ہیں مگر وہ بھیڑ ایک کسی ضابطے کے تحت اکٹھی ہو اور ایک وضح کردہ نظام کی پیروی کرے تو اس کو تنظیم کہتے ہیں۔

قوم کو غرق کرنے کیلئے اسے ان بنیادی نکات سے بیزار کرکے غیر منظم کیا گیا اور یہ کوئی غلطی سے نہیں ہوگیا بلکہ اس کیلئے بڑی مشقت کر کے ایک مخصوص طبقے کو تیار کیا گیا اور اس کو تمام شعبۂ زندگی پر براجمان کر دیا گیا۔ وہ طبقہ 'اشرافیہ' کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے متعلق سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے۔ ایلیٹ شخصیات کا نہیں بلکہ پورے طبقے کا نام ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت ملک کی 75 فیصد سیاسی جماعتوں کے سربراہان، سیاست دان اور بیوروکریسی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں ہر شعبے کے تقریباً 75 فیصد افراد ایک ہی ادارے (ایچی سن) سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اب جبکہ ایسا طبقہ ملک کے تمام داخلی و خارجی امور کا تعین کرتا ہے تو ان سے خیر کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ ان غیر مساویانہ رویوں کی زد میں آکر اس قوم کا اتحاد انتشار کا شکار ہو گیا اور کرپشن، ظلمت، بے راہروی اور بے یقینی کے بھیڑیوں نے قوم کو زندہ نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیا۔ ایسے وقت میں خود بھیڑیے ہی اس قوم کے رکھوالے اور مسیحا بن کر سامنے آئے اور اس الجھی سی قوم کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر گمراہ کر دیا۔ آج یہ ڈور ایسی الجھی ہے کہ کوئی اس کے سروں کو آزاد نہیں کر سکتا۔

یہ امر افسوسناک ہے کہ وطن عزیز میں بیشتر اہم معاشی و مالیاتی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں یا ان کے دباؤ پر بنائی جاتی ہیں خوآہ اس کیلئے قانون سازی کرنا پڑے یا قانون کو توڑنا پڑے۔ ان نقصانات کو پورا کرنے کیلئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، ترقیاتی اخراجات و انسانی وسائل کی ترقی کیلئے کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ملکی و بیرونی قرضوں پر بے تحاشا انحصار کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں طاقتور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں، قومی دولت لوٹنے والوں، بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والوں، پاکستان سے لوٹ کر یا ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی رقوم سے ملک کے اندر اثاثے بنانے یا ملک سے باہر اثاثے منتقل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کروائے بغیر ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینا ممکن ہے۔ پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے پروگرام کے اندر رہا ہے جبکہ لمبے عرصے سے ہر حکومت لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اجراء کو اپنا فرض منصبی سمجھتی رہی ہے۔ اقتدار میں آنے، اقتدار برقرار رکھنے اور اسے طول دینے کیلئے طاقتور اشرافیہ کے علاوہ امریکا کی آشیرباد پر بھی بڑی حد تک انحصار کیا جاتا ہے چنانچہ ملکی اشرافیہ، حکمرانوں، کچھ ریاستی اداروں اور بیرونی اشرافیہ (استعماری طاقتوں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایف اےٹی ایف) میں گٹھ جوڑ نظر آتا رہا ہے۔ ان تمام تر خطاؤں کے باوجود عطاء ہو سکتی ہے، اگر ہم احساسِ ندامت کو اپنے اندر جگا لیں۔

ہمارا مقصد دعوتِ الی اللہ ہے اور اسی کی خاطر ہم نے وطن حاصل کیا تھا۔ بقول بابائے قوم رحمۃ اللہ علیہ "ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔‘‘ (13 اپریل 1948ء)۔ انشاء اللہ ہم اپنے قائد کے رہنماء اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے دوبارہ اٹھیں گے اور دنیا پر چھا جائیں گے، 15 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ "مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13, سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ قرآنِ مجید ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔" صرف اتنا ہی نہیں بلکہ قائدِ اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ "قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکامات موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسومات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک، حتیٰ کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکامات کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں۔" عزیز ہم وطنو! یہ ملک ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے، جس کی بشارت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہو وہ بھلا کیسے ختم ہو سکتا ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش کے مطابق اس ملک کو قرآن و سنت کے طریقے سے چلایا جائے۔