کنزیومر اور اُس کے حقوق

image

 

 

ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہم سو طرح کی چیزیں یا اشیاء روزانہ کی بنیاد پر خریدتے ہیں۔ اس طرح ہی معاملات زندگی چلتے ہیں اور ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ آج سے 30، 40 سال قبل تک لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کیلے اشیاء ایک دوسرے سے تبدیل کر لیا کرتے تھے۔ ضرورت کے لحاظ سے یعنی اگر ایک شخص کے پاس 1 کلو دال ہے اور اُسے چاول چاہیئے ہوتے تو وہ اُس دال کے بدلے ایک کلو چاول لے لیا کرتا تھا۔ وقت بدلتا رہا اور جدت آتی رہی۔

کچھ عرصہ بعد پیسہ عام ہو گیا اور لوگ پیسوں کے ذریعے تجارت کرنے لگ گئے. اب کسی شخص کو کوئی چیز ضرورت ہو تو وہ پیسے دے کر وہ چیز خرید سکتا ہے۔ جب یہ سب چیزیں عام ہو گئیں تو اِن معاملات کو چلانے کیلئے اور چیزیں بیچنے والوں اور خریدنے والوں کیلئے قوانین ہونا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور وہ لوگ جو چیزیں خریدتے ہیں اُن کے ساتھ ظلم اور ذیادتی کو کم کرنے اور روکنے کیلئے 1995ء کی دہائی میں ایک قانون بنایا گیا۔ 

صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے  پاکستانی حکومت نے قومی اور صوبائی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کی جس میں صارفین کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ قوانین عصر حاضر میں نافذ اور جامع بھی ہیں جو صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا نے میں بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ ان قوانین کی مدد سے صارفین کے مختلف مسائل اور تنا زعات کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے 

یہ قانون سب سے پہلے اسلام آباد کیلئے بنایا گیا جو کہ اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ- 1995ء کے نام سے موجود ہے۔ اب ہر صوبے نے اپنا کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ بنا لیا ہے۔ اب سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ کنزیومر کون ہوتا ہے۔ کنزیومر صارف کو کہتے ہیں یعنی صرف کرنے والا / خرچ کرنے والا / استعمال کرنے والا. اسی طرح کنزیومر پرٹیکشن ایکٹ میں بھی صارف کو کنزیومر کے معنی دیے گئے ہیں کہ کنزیومر کسے کہتے ہیں اور اُس میں کیا کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں؟ 

اگر ہم 2019ء کے ایکٹ کی بات کریں تو اُس میں کنزیومر کے معنی یہ ہیں 'صارف کو اس شخص سے تعبیر کیا گیا ہے جو کسی خدمات یا کوئی سامان کی خریداری کرتاہے'۔ اس میں الیکٹرانک ذرائع، ٹیلی شاپنگ، براہ راست فروخت یا کثیر سطحی مارکیٹنگ (Multi-Level Marketing) کے ذریعہ آن لائن اور آف لائن دونوں لین دین بھی شامل ہیں۔

 اس ایکٹ میں صارف کے تمام حقوق بہت ہی احسن طریقے سے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اس ایکٹ کے بنانے کا مقصد تھا کہ صارف کو اوچھے ہتھکنڈوں سے بچایا جا سکے یعنی جب بھی کوئی صارف کوئی چیز خریدتا ہے یا استعمال کرتا ہے تو اُس میں کوئی خرابی آ جائے یا بیچنے والا دکاندار وہ چیز بہت مہنگی دے رہا ہو یا کوئی جعل سازی کرے اور اُس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو تو وہ اُس کیلئے شکایت درج کروا سکے اور اُس شکایت پر عمل درآمد بھی ہو۔

اس حوالے سے اِس ایکٹ کے تحت ہر ضلع میں کنزیومر کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور سیشن جج یا پھر ایڈیشنل سیشن جج اُس کورٹ کو پرزائیڈ کرتے ہیں۔ شکایت درج کروانے کیلئے صارف کو صرف ایک درخواست (جس کے ساتھ متعلقہ دستاویزات موجود ہوں ) بغیر کسی وکیل کے جمع کروا سکتا ہے اور اُس کی درخوست پر عدالت دوسری پارٹی کو عدالت میں بلوائے گی اور دونوں کی بات سُن کر اُس پر فیصلہ صادر کرے گی۔

اگر دکاندار کا ظلم اور بے ایمانی ثابت ہو جائے تو اُس پر جرمانہ بھی ہوگا اور وہ اُس چیز کا معاوضہ بھی صارف کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ ہماری عام عوام اِن قوانین سے بے خبر ہے اور حکومت بھی اِن قوانین کی آگائی کیلے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھا رہی جس سے عوام میں شعور پیدا ہو اور وہ اپنے حق کیلے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے۔