عدل و انصاف

image

فرمان باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اﷲ سنتا (اور) دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء)

عدل کے معنی حق دار کو اس کا پورا حق ادا کر دینا کے ہیں۔ اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہمکنار ہوتی ہیں اور جن معاشروں میں اس گوہرِ گراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے وہ رُو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں عدل و انصاف قائم کرنے پر بے انتہا زور دیا گیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اﷲ رب العالمین کے احکامات اور رحمۃ للعالمین ﷺ کے ارشادات عالیہ پر کماحقہ عمل پیرا ہوں اور جب اﷲ اور اس کے حبیب رسولؐ کسی بات میں فیصلہ کر دیں تو انہیں بغیر چُوں چراں کے تسلیم کر لیں اور انہی احکامات کی روشنی میں اپنے معاشرے میں صحیح معنوں میں عدل و انصاف قائم کریں۔

مالک کائنات نے اہل ایمان کو تاکیداً فرمایا کہ جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ یعنی اگر کوئی حکمراں یا قاضی منصب قضا پر فائز ہے یا پنچایت کا سربراہ، اسی طرح برادری کا بڑا ہو یا کوئی بھی شخص کسی بھی لحاظ سے انصاف کرنے کی حیثیت میں ہو تو اسے چاہئیے کہ وہ فریقین کے دلائل، حالات و واقعات اور شہادتوں یا اقرار کی صورت میں ٹھیک عدل کرے اور مظلوم کو اس کا پورا حق دلائے اور ظالم و غاصب کے خلاف قرآن و سنّت کی روشنی میں تادیبی کارروائی کرے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ محض حق دار کو اس کا حق دلا دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس حق کو غصب یا پامال کرنے والے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی لازم ہے تاکہ عدل کے تمام تقاضے پورے ہو سکیں۔ اسی طرح اس آیت مبارکہ میں آگے فرمایا کہ دیکھو یہ معاملہ اﷲ کے نزدیک اس قدر حساس ہے کہ اس بارے میں تمہارا مالک تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے تاکہ تمہارے دلوں میں اس حکم کی عظمت راسخ ہوجائے اور یہ گمان مت کرنا کہ تم اس دھرتی پر جو کچھ کرتے ہو اﷲ کو اس کی خبر نہیں۔ تم سرگوشی کرو یا دل و دماغ میں کوئی بات سوچو اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں کی بات بھی سنتا ہے اور جو کچھ ظاہری یا درپردہ اعمال کرتے ہو انہیں بھی اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

درحقیقت عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انصاف بھی ایسا ہو جو سب کے لیے یکساں ہو۔ یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جُرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جبکہ غریبوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتا ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ قانون بنایا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ اسے توڑا جائے اور سب سے زیادہ قانون شکنی وہی لوگ کرتے ہیں جو صاحب جاہ و منصب اور مال دار ہیں۔ حالانکہ اسلامی معاشرے میں ایک عام آدمی سے لے کر امیر تک سب احکامات شرعیہ کے پابند ہوتے ہیں۔

جرم کوئی بھی کرے اسے اس کی سزا مل کر ہی رہنی چاہئیے۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی بااثر فرد چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت والا چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ بنت اسد کی جگہ آج فاطمہؓ بنت محمّد (ﷺ) بھی اس جرم میں گرفتار ہوتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ 

(بخاری و مسلم)

امام کائنات ﷺ نے دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی وہ روشن مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہے۔ یقیناً عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ حق دار کو پورا حق ادا کر دیا جائے اور ظالم کو اس کے جرم کی صحیح سزا ملے تاکہ مظلوم کے جذبۂ انتقام کو بہ ذریعہ قانون تسلی و تشفی ہو، وگرنہ معاشرے میں جرم در جرم ہوتے رہیں گے اور لوگ انصاف نہ ملنے پر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ اسلام مکمل عدل کی ہدایت کرتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ 

مجرم کو بس اسی قدر سزا دی جا سکتی ہے جو اس نے جرم کیا ہے، اس سے زیادہ سزا ظلم کے زمرے میں آئے گی جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں عدل و انصاف کے بارے میں فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں ا س بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اﷲ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ)۔ ’’اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتے دار ہی ہوں اور اﷲ کے عہد کو پورا کرو۔‘‘ (الانعام)

ان آیات مبارکہ سے عدل و انصاف کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل کس قدر حساس اور لازم ہے کہ اس کے تقاضوں کو اﷲ کے ڈر اور خوف کے ساتھ انجام دیا جائے اور اگر عدل کرتے ہوئے اپنا قریب ترین عزیز رشتے دار بھی اس کی زد میں آ رہا ہو تو رشتوں کی پروا کیے بغیر عدل کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور ہر طرح کے تعلق، سفارش یا رشوت جیسی لعنتوں کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا جائے تاکہ منصف بارگاہ ایزدی میں سُرخ رُو ہو اور مظلوم کی داد رسی ہو اور مقتدر صاحب ثروت یا اقتدار اور دولت کے نشے میں چُور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ ظلم و تعدی سے باز رہیں اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب بے لاگ انصاف ہو جو آج ہمارے معاشرے میں مفقود ہے جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے اور ہم قوموں کی برادری میں بے وزن ہو کر رہ گئے ہیں۔

عدل کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ مفہوم: ’’اور انصاف کرو بے شک اﷲ انصاف کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے۔‘‘ (الحجرات)

 گویا عدل کرنا حب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حقیقی مسلمان کسی پر ظلم و زیادتی سے بہت دور رہتا ہے۔ اس کی انصاف پسندی کو ہوائے نفس اور دنیاوی خواہش و شہوت ڈگمگا نہیں سکتی اور انہی صفات کی وجہ سے وہ اﷲ کی محبت، رضا، اعزازات اور انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مفہوم: ’’انصاف کرنے والے اﷲ کے نزدیک نُور کے منبروں پر ہوں گے وہ جو اپنے فیصلوں میں اہل و عیال اور جو ان کی حکمرانی میں ہوں، میں انصاف کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

 امام کائنات ﷺ نے فرمایا کہ 7 طرح کے انسانوں کو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جبکہ اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ان میں ایک امام عادل یعنی انصاف کرنے والا حکمران یا قاضی ہے۔