پراپرٹی کے کاروبار کی طرف مائل کرنے والے خفیہ ہاتھ اس قوم کے مجرم

image

 ہم کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جہاں کہیں بھی چھوٹے یا بڑے شہر موجود ہیں، وہیں آبادی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے لوگ بڑی تعداد میں مکانات، بلڈنگز اور فیکٹریاں بناتے جا رہے ہیں لوگوں نے خرید و فروخت کا عمل جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سرمایہ دار اور پراپرٹی ڈیلروں نے لوگوں کو زیادہ کمائی کیلئے  نئی سے نئی رہائشی اسکیمیں لگا کر آسان کمائی کے چکروں میں ڈال دیا ہے۔ 

اس وجہ سے زرعی رقبہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، یہ نت نئی رہائشی اسکیمیں اس قوم کو ایک بدترین غذائی بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ بین الاقوامی میگزین "دی اکنامسٹ" کا شمارہ بدترین قحط کی پیشگوئی کر رہا ہے، اس میگزین کے سرورق پر گندم کے خوشوں میں گندم کے دانوں کی جگہ بھوک سے مرنے والے انسانوں کی کھوپڑیوں کو دکھایا گیا ہے جسے زوم کر کے تصویر کو بڑا کر کے دیکھ سکتے ہیں۔

دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اس وقت زرعی ممالک میں ٹاپ پر ہے۔ یہاں زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں لاہور، کراچی اور فیصل آباد جیسے کئی بڑے بڑے شہر ہیں، ان شہروں کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی رہائشی کالونیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی میگزین "دی اکنامسٹ" کے مطابق صرف لاہور کے آس پاس گذشتہ 5 برسوں میں 2 لاکھ ٹن گندم پیدا کرنے والا زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ 

آنے والے سالوں میں غذائی بحران کا شدید سامنا ہوسکتا ہے۔ تمام پراپرٹی ڈیلروں اور سرمایہ داروں سے درخواست ہے کہ ان اسکیموں سے باز آجائیں، ان پلاٹوں اور کالونیوں کے چکر میں نہ پڑیں بلکہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور پوری قوم کو یہ بتائیں کہ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اجناس کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پھل دار درختوں کی بھی ضرورت ہے۔ اجناس کے پودوں سے ہماری آنے والی نسلیں غذائی بحران کے سے بچ سکتی ہیں، پوری قوم کو توجہ دینا ہوگی ورنہ پاکستان کی موجودہ صورتحال دیکھ رہے ہیں، وہ بہت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔

ایک زرعی ملک میں رہنے کے باوجود ہم دیگر ممالک کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ آخر کب تک ہمارے پڑوسی ممالک ہمارا خیال کرتے رہیں گے؟ پوری قوم کو مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کھڑا ہونا ہوگا، حکومت پاکستان سے بھی درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بھر پور کردار ادا کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو غذائی بحران سے بچا سکیں ورنہ جلد ہم غذائی بحران کا شکار ہونے والے ہیں۔ اس وقت سے ڈرو جب روپے پیسے ہونے کے باوجود بھی کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔