مہنگائی کا طوفان اور ظالم حکمران

image

آئے روز مہنگائی کے عذاب کی شدت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ اس دوران حکمرانوں کی لوٹ مار اور عیاشیاں بھی کم نہیں ہو رہیں۔ پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور اس میں ابھی بھی بہت زیادہ اضافہ ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے کوئی مذمتی بیان آیا ہے اور نہ ہی کسی دانشور یا کالم نگار کے دماغ کے کیڑے میں جنبش ہوئی ہے۔ حکمران طبقہ عوام کو فروعی لڑائیوں میں الجھانا چاہتا ہے اور پوری قوت سے نان ایشوز کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود زندگی کی حقیقتیں ہر روز محنت کشوں کو ڈستی رہتی ہیں اور انہیں موت کے منہ میں دھکیلتی چلی جا رہی ہیں۔

موجودہ حکومت انہی افراد پر مبنی ہے جو مہنگائی کے خلاف سب سے زیادہ تقریریں کرتے تھے۔ مہنگائی کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کے نعرے لگانے والے عوام دشمن حکمران اپنے اقتدار کے دوران پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ کر چکے ہیں اور ابھی اس میں مزید اضافہ کیا جانا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے اور اب ڈالر کی قیمت نئی بلندیوں کو چھونے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس دوران ملک میں مہنگائی کا ایک سیلاب آ چکا ہے جو محنت کش عوام کی تھوڑی بہت جمع پونجی بھی بہا لے جانے کے بعد اب ان کی زندگیوں کو نگل رہا ہے۔ اس دوران حکمرانوں کی کرپشن کے نئے قصے ہر روز سننے کو ملتے رہتے ہیں لیکن کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگانے والا وزیر اعظم اور اس کی ٹیم کرپشن میں کئی گنا اضافہ کرنے کے بعد اس گنگا میں ننگی نہا رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرمایہ داروں کیلئے ٹیکسوں کی چھوٹ کے کئی پیکجز دیے جا چکے ہیں جس میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور تعمیراتی شعبہ سر فہرست ہے۔ اس کیلئے اس شعبے سے وابستہ مزدوروں کا بہانہ بنایا جاتا ہے لیکن واضح طور پر اس شعبے سے منسلک طاقتور مافیا سے لے کر ملک کے امیر ترین افراد تک سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔

حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ریاستی اداروں کا واحد کام میڈیا پر آ کر جھوٹ بولنا اور اسی جھوٹ اور فراڈ پر مبنی سیاست کرنا ہے جس میں عوام کو کسی نہ کسی طرح خاموش رکھا جائے اور اس دوران یہ تمام مافیاز اور سرمایہ دار طبقہ اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکے۔ اسی لیے ملک میں جتنی زیادہ مہنگائی اور بیروزگاری پھیل رہی ہے اور محنت کش طبقے کی بھوک اور بیماری سے اموات بڑھتی جا رہی ہیں اتنا ہی میڈیا پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جس پر اب حکمرانوں کے اپنے کاسہ لیس اور لفافہ صحافی بھی تھوڑا بہت شور و غوغا کرتے نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کے خلاف عوام کی ابلتی ہوئی اور بھڑکتی ہوئی نفرت کی عکاسی کسی بھی ٹی وی چینل یا اخبار میں نظر نہیں آتی اور نہ ہی بھوک سے مرنے والوں کی خبروں کو منظر عام پر آنے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں  کرونا وباء کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن میں جس طرح لاکھوں دیہاڑی دار مزدور کئی ہفتے بھوک کا شکار رہے اور اس کے بعد کچھ شہروں میں خوراک کی اشیاء پر فسادات ہونے کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں، انہیں بھی مین سٹریم میڈیا پر سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ اسی طرح بھوک کے باعث خود کشی کرنے والے اور یہاں تک کے اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو نہر میں پھینک کر یا دوسرے طریقوں سے قتل کرنے کے کچھ واقعات سامنے آنے پر عوامی غم و غصہ نظر آیا جس کے بعد ایسی خبروں کو بھی سامنے آنے سے روک دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے واقعات ختم ہو گئے ہیں یا ملک میں ترقی اور خوشحالی لوٹ آئی ہے بلکہ حکمران طبقات عوامی بغاوت کے خوف سے پہلے کی نسبت زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں اور میڈیا پر ایسی کوئی بھی خبر یا تجزیہ آنے سے روکتے ہیں جس سے عوام کے مشتعل جذبات کو کوئی چنگاری مل سکے۔ اس دوران خبروں کا پیٹ بھرنے کیلئے عوام دشمن سیاستدانوں کی جعلی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر غلاظت بھرے الزامات کی خبریں مسلط کی جاتی ہیں یا پھر ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ حکمران عوام کی حالت زار کے بارے میں بہت فکر مند ہیں اور ان کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔

اس ملک میں آٹا اور چینی مافیا سے تو سب ہی واقف ہو چکے ہیں جو ریاستی اہلکاروں اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر بنیادی ضروریات کی ان اہم ترین اشیاء پر بے دریغ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور سینکڑوں ارب روپے کے منافع ہر سال کما لیتے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکومت میں شامل تمام وزیر اور ان کی پشت پر موجود دیگر ریاستی اہلکار بھی اسی لوٹ مار میں ملوث ہیں اور یہی وجہ ہے کہ محنت کش عوام بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں جبکہ یہ سرمایہ دار قیمتوں میں کمی کرنے کی بجائے مزید اضافے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہی کچھ ادویات کی قیمتوں کے ساتھ بھی کیا گیا ہے جس میں ایک وفاقی وزیر پر اربوں روپے رشوت لینے کا الزام بھی سامنے آیا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور وہ آج بھی لوٹ مار کی گنگا میں نہا رہا ہے۔ جب اس قاتلانہ اقدام کے خلاف غم و غصہ سامنے آیا تو ادویات ساز کمپنیوں کے حق میں دلائل دیے گئے اور ان کھرب پتیوں کی مشکلات کا رونا رو کر عوام کو چپ کروانے کی کوشش کی گئی۔ یہی اس حکومت سمیت دیگر تمام حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے۔ آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت، ان میں محنت کش عوام کو بیدردی سے کچلا ہی گیا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ایل این جی کی حالیہ خریداری میں بھی بہت بڑی کرپشن سامنے آئی ہے جس میں 9 ڈالر کے ریٹ پر ملنے والی گیس 15 ڈالر سے زیادہ کی قیمت پر خریدی گئی ہے۔ اس میں کتنے لوگ ارب پتی سے کھرب پتی ہو گئے ہیں یہ ابھی تک معلوم نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ لاکھوں محنت کش پہلے کی نسبت دُگنی قیمت پر یہ بنیادی ضرورت کی شے خرید کر غربت کی چکی میں مزید پستے چلے جائیں گے۔

انسانی سماج کا اصول ہے کہ جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف بغاوت لازمی ابھرتی ہے۔ یہی کچھ آنے والے وقت میں یہاں بھی نظر آئے گا۔ آج پوری دنیا میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف انقلابات اور عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں جو اس نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں کی موجودہ حکومت اور معیشت و سیاست کا بحران بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا ہی اعلان کر رہا ہے۔ ظلم اور جبر پر مبنی اس نظام کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے جس میں ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ سرمایہ داروں کی تمام تر دولت ضبط کر لی جائے گی اور تمام ذرائع پیداوار محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت میں ہوں گے۔ منافع خوری اور مزدور کے استحصال پر مبنی اس نظام کا خاتمہ کیا جائے گا اور امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی۔ سماج میں پیدا ہونے والی تمام تر دولت اجتماعی ملکیت ہو گی اور ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے تمام افراد کو بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں گی۔ قومی اور صنفی جبر سمیت ہر قسم کے جبر کا خاتمہ کیا جائے گا اور انسان ہر قسم کے ظلم سے نجات حاصل کرے گا۔ حکمران طبقے کی عیاشیاں بھی ختم ہوں گی اور محنت کشوں کی دکھ اور تکلیف سے بھری زندگی بھی۔ ایسے انقلاب کو برپا کرنے کیلئے آج ایک انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ اس بحران زدہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اس کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور یہاں حقیقی آزادی کی سحر طلوع ہو۔