موسمیاتی تبدیلیاں اور فصلوں کا مستقبل

image

 

 

ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات زندگیوں کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ سمیت صنعتی یونٹس جس طرح ماحول کو کاربن زدہ کر رہے ہیں، حالیہ دنوں کا سب سے بڑا عالمی چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ کاربن زدہ ماحول میں گو کہ سب سے بڑا حصہ بائیو فیولز کا ہے، تاہم فصلوں کی باقیات کو جلانے سے بھی فضائی آلودگی جنم لیتی ہے۔ اگر 20ویں صدی میں موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کی جاتی تو شاید دنیا اتنی توجہ نہ دیتی لیکن دور حاضر میں موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

فضائی آلودگی کی وجہ سے جہاں سانس کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، وہیں اوزون کی تہہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی زیادتی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے۔ کمزور ہوتی اوزون تہہ سورج کی شعاعوں کو براہ راست زمین پر پڑنے سے روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ سورج کی براہ راست شعاعیں انسانوں اور جانوروں میں جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ گرین ہاؤس ایفیکٹ کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ بہت سے پیچیدہ مسائل پیدا کر رہا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اب تک اوسطاً ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز کثیر مقدار میں پگھل رہے ہیں۔ بے موسمی بارشیں اور گلیشیئرز کا پگھلاؤ سیلاب کی صورت میں فصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں دنیا بھر کو متاثر کر رہی ہیں، وہیں جنوبی ایشیائی ممالک میں شدید موسم کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ گرمیوں کا موسم طویل تر اور سردیاں محض 3 ماہ تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ پاک و ہند کے میدانی علاقوں میں موسم گرما 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطہء انجماد سے نیچے گر جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں کے ساتھ ساتھ فصلوں کی پیداوار پر بھی شدید اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ موسم سرما میں پڑنے والا کہر اور اسموگ فصلوں کی پیداوار پر براہ راست اثر کرتا ہے۔ وقت پر بارشوں کا نہ ہونا اور پکی ہوئی فصل بارش کی نذر ہونا فی ایکڑ پیداوار کم کرنے کے بنیادی اسباب ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کو اگر 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کیلئے عالمی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی اس ضمن میں بڑے دور رس اقدامات کئے ہیں۔ بلین ٹری سونامی اس حوالے سے ایک پائیدار پروجیکٹ ہے کیونکہ درخت بارشوں اور سیلاب سے زمینی کٹاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت میں توازن کیلئے بھی اہم ہیں۔

درخت کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ شدید موسم سرما میں کہر پڑنے سے بھی فصلیں شدید متاثر ہوتی ہیں جس سے جانوروں کے چارہ میں کمی اور غذائی بحران میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کسان بھائیوں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کا جامع منصوبہ بنانا چاہئیے۔ کہر اور شدید سردی سے فصلوں کو بچانے کیلئے وقفے وقفے سے پانی کا چھڑکاؤ کرنا چاہیئے۔ سابق حکومت نے اس حوالے سے ایک پروگرام مرتب کیا تھا جس کے تحت چھتری تلے کسانوں کو فوارے کے ذریعے پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

حکومت کو چاہیئے کہ موسمی حالات سے بچاؤ کیلئے کسانوں کو شیڈ کاشت کی طرف راغب کرے۔ بہتر منصوبہ بندی اور وسائل کے استعمال سے کسانوں کو امداد پہنچائی جائے۔ پنجاب میں شیڈ کاشت کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر پاکستان اور خصوصاً پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں شیڈ کاشت پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جدید خطوط پر تحقیق کر کے ہائبرڈ بیج تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کہ شدید موسمی حالات کا سامنا کر سکیں۔ حکومت اگر مناسب حکمت عملی اپنا کر بہتر منصوبہ بندی میں ناکام رہتی ہے تو مستقبل میں غذائی بحران جنم لے سکتا ہے۔