منشیات کی دلدل میں دھنستی دنیا

image

عام طور پر منشیات کے استعمال اور کاروبار کا ذکر آنے پر ہمارا دھیان غریب اور پسماندہ ملکوں کی طرف جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس وقت براعظم یورپ اور امریکہ کو منشیات کی بڑی یلغار کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے 'یو این او ڈی سی' کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 سے 64 سال کی عمر کے تقریباً 28 کروڑ 40 لاکھ افراد نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ منشیات استعمال کرنیوالوں کی تعداد گزشتہ دہائی کے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ ہے جو دنیا کیلئے بڑا چیلنج بن کے سامنے آ رہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ 35 سال سے کم عمر افراد کے ساتھ دنیا میں نشے کے عادی ممالک میں سر فہرست ہے۔ صرف امریکہ میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 46 ملین یعنی کل امریکی ابادی کا 6 فیصد ہے۔

منشیات کی اسمگلنگ اور تیاری کی عالمی فہرست میں افغانستان کا پہلا نمبر آتا ہے۔ افغانستان میں دنیا کی 90 فیصد ہیروئن بنائی اور سپلائی کی جاتی ہے۔ اس میں روس افغان وار کے بعد سے تیزی آئی ہے، تاہم امریکی انخلاء کے بعد سے مجموعی پیداوار میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کوکین کی تیاری اور اسمگلنگ میں بولیویا سرفہرست ہے۔ جبکہ برازیل بولیویا کے بعد دوسرا بڑا کوکین اسمگل کرنیوالا ملک ہے۔ لاؤس میں دنیا کی 40 فیصد آئس یا کاٹل میتھ تیار اور اسمگل کی جاتی ہے۔ ڈومینا ریپبلک اور میکسیکو بھنگ اور اس سے تیار مصنوعات کی اسمگلنگ میں سرفہرست ہیں۔ 

رپورٹ میں محتاط اندازے سے بتایا گیا ہے کہ صرف امریکہ میں تقریباً 11.2ملین افراد منشیات کے انجیکشن لگا رہے ہیں اور ان میں سے 50 فیصد ہیپاٹائٹس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر سال منشیات کے استعمال سے بلا واسطہ یا باالواسطہ 11.8 ملین اموات ہو رہی ہیں۔ صرف امریکہ میں سال 2021ء کے ابتدائی تخمینے کے مطابق 1 لاکھ 7 ہزار امریکی منشیات کے استعمال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2020ء میں نشے کے عادی 92 ہزار امریکی علاج نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو گئے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ 22.3 ملین امریکی گزشتہ دہائی میں بحالی سینٹرز سے علاج معالجہ کے بعد معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔

عالمی سطح پر منشیات اسمگلنگ  کی روک تھام کیلئے بڑے سخت اور پائیدار انتظامات کئے گئے ہیں، تاہم بعض وجوہات کی وجہ سے ڈرگ ٹریفکنگ مکمل طور پر قابو میں نہیں آ سکی ہے۔ منشیات کی عالمی اسمگلنگ روکنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یورپ سمیت امریکہ میں داخلی مقامات پر سخت ترین اسکیننگ اور تلاشی کے باوجود منشیات کی بڑی کھیپ اسمگل ہوتی ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اسمگل ہونے والی زیادہ تر منشیات چین سے میکسیکو کے راستے امریکہ پہنچتی ہیں۔ امریکی نشے کے عادی افراد زیادہ تر مقامی سطح پر تیار کی جانیوالی منشیات استعمال کرتے ہیں۔ افریقی ممالک میں منشیات استعمال کرنے کی شرح کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ ملکی معاشی و معاشرتی حالات کا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کی بڑی وجہ منشیات کو قرار دیا تھا۔ انہوں نے اس وقت اپنے مشیروں سے صلاح مشورے کے بعد ملک میں طبی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا کیونکہ نشے کے عادی افراد ٹریفک حادثات اور متشدد کاروائیوں میں زیادہ ملوث پائے گئے تھے۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ کو منشیات کی لت میں گرفتار افراد کی وجہ سے سالانہ 719 ارب ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ رقم منشیات کی خریداری، حادثات میں جانی و مالی نقصانات یا طبی اخراجات کی مد میں خرچ ہوتی ہے۔ موجودہ صدر جو بائیڈن نے بھی ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے منشیات کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔

منشیات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کیلئے مقامی سطح پر آگاہی واک اور سیمینار کے ذریعے عوام کو منشیات کے نقصانات بارے آگاہی فراہم کرنا شامل ہے۔ غیر سماجی سرگرمیوں اور تعلیمی ورکشاپس کے ذریعے منشیات کے خلاف مزاحمتی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نشے کے عادی افراد کو بحالی مراکز میں جتنا جلدی ہو سکے داخل کروانا چاہیئے۔ ایسے افراد کو خاندان یا کمیونٹی میں کسی بھی صورت نہیں رہنا چاہیئے کیونکہ بچوں خصوصاً نوجوانوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ نشے کے عادی افراد کو محبت اور شفقت سے مثبت ذہنی سرگرمیوں میں مصروف کرنا چاہیئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 76 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد عورتیں ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 40 ہزار افراد ہیروئن اور کوکین کا نشہ کرتے ہیں۔ پاکستان گزشتہ دہائی میں منشیات سے متاثرہ سر فہرست 10 ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ غیر ملکی کلچر اور بنیادی تربیت کے فقدان کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی درسگاہیں منشیات کے استعمال کی سب سے بڑی آماجگاہیں بن چکی ہیں۔ مخلوط تعلیمی نظام اور آوارہ اذہان ملک خدادا کو ایک اور بڑے چیلنج کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور تربیت کا فقدان پاکستان کو بڑے المیے کی طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں بحثیت قوم ردعمل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں پاکستان کے روشن مستقبل کی ضرورت ہے۔ ہمیں خوش باش اور توانا جوانوں کی ضرورت ہے۔