تاریخی مقام چھجو دا چوبارہ

image

فقیر میاں میر سے چھجو رام بھاٹیا کی زندگی بدل دینے والی ملاقات، چھجو کے ڈیرے پر فقیروں اور  سادھوؤں کا آنا جانا رہتا، وہاں مذہب،ںرنگ اور نسل سے بالاتر ہوکر ایک ذات کی مالا جبی جاتی تھی،  گنبد کو قیمتی دھاتوں اور شیشے کی مدد سے بنایا گیا ہے جو فن نقاشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

لاہور: رتن چند کے سرائے سے جنوب کی طرف میو ہسپتال کے تقریباً وسط میں چھجو دا چوبارہ ایک خوبصورت تاریخ لئے موجود ہے۔ چھجو کا مکمل نام چھجو رام بھاٹیا تھا جو سونے کا ایک بڑا سوداگر تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق آج سے تقریبا 400 سال قبل چھجو رام کا دور بتایا جاتا ہے، وہ ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفیس اور مخلوق خدا سے پیار کرنے والا شخص بھی تھا۔ اپنے مذہب کے طور طریقوں کے مطابق وہ کام سے فارغ ہونے کے بعد رات کو اپنی پوجا پاٹ علیحدگی میں کرتا تھا۔ اسی دوران چھجو رام بھاٹیا کی ملاقات ایک مسلمان فقیر میاں میر کے ساتھ ہوئی تو اسکی زندگی کا رخ تبدیل ہو گیا۔   

اللہ والے سے ملاقات کے بعد چھجو رام صرف مخلوق خدا کی خدمت میں لگ گیا کیونکہ اسے اپنی پوجا پاٹ کی حقیقت نصیب ہوگئی تھی، اب چھجو کے ڈیرے پر فقیروں اور  سادھوؤں کا آنا جانا رہتا، وہاں مذہب، رنگ اور نسل سے بالاتر ہوکر ایک ذات کی مالا جبی جاتی، چھجو فقیروں اور سادھوؤں کی خدمت کرکے خوش ہوتا اور سکون محسوس کرتا۔ انکے لئے خود کھانا بناتا اور رات کو چوبارے پر آرام کیلئے جگہ بناتا تاکہ کمرہ ہوا دار رہے۔ صبح جانے والے فقیروں کو راستے میں خرچ کیلئے سکے بھی دیتا حتیٰ کہ اسکے آس پاس بسنے والے لوگوں کو بھی اگر کچھ چاہئیے ہوتا تو وہ بلا جھجک آکر لے جاتے۔ چھجو رام کی قبر کہاں ہے آج تک کسی کو معلوم نہیں کیونکہ آخری وقت میں وہ لوگوں سے ملنے چوبارے سے باہر آیا اور واپس اندر جانے کے بعد کسی کو نظر نہیں آیا۔ اسکے مرنے کے بعد اسکی یادگار میں اس جگہ کو تعمیر کیا گیا۔

ابتداء میں یہ یادگار کچھ رقبے پر ہی محیط تھی لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب پنجاب فتح کیا تو اسکا رقبہ بڑھا دیا۔ چوبارے کے چاروں اطراف ایک خوبصورت باغیچہ بنوایا، کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے اندرونی سکون کیلئے ہفتے میں ایک روز یہاں ضرور آتا تھا۔ وقت گذرتا رہا، جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو وہ آہستہ آہستہ قدیم ورثوں کو ختم کرتے گئے۔ انگریز نے چوبارے کو ختم کرکے یہاں ہسپتال بنانا چاہا تو لوگوں کے اصرار پر صرف چوبارے کو چھوڑ کر باقی ایریا میں ایک ہسپتال تعمیر کروا دیا۔ 

چھجو کا چوبارہ بظاہر بہت چھوٹی سی جگہ گھیرے ہوئے ہے لیکن سکھ فن تعمیر کا بہترین شاہکار ہے۔ موجودہ چوبارہ ایک گنبد کے نیچے ہے جو آکٹیمل طرز پر بنایا گیا ہے، اس گنبد کو سفید سینڈ سٹون سے بنایا گیا تھا۔ گنبد کے آس پاس پلاسٹر سے بنائی گئی خوبصورت پتیاں نظارے کو اور بھی حسین بنا دیتی ہیں۔ چوبارے کا دروازہ مضبوط لکڑی کے ساتھ بنایا گیا ہے اور اس پر کیا ہوا خوبصورت کام دیکھنے والے کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ گنبد کا اندونی منظر بیرونی منظر سے کئی گناہ زیادہ دلکش اور حسین ہے۔ اس خوبصورت گنبد کو قیمتی دھاتوں اور شیشے کی مدد سے بنایا گیا ہے جو فن نقاشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیشے کا کام اس قدر نفیس انداز سے کیا گیا ہے کہ یہ گنبد لاہور میں شیش محل کا دوسرا حصہ لگتا ہے۔ دیواروں کے اوپر بہت خوبصورت در بنائے گئے ہیں جو اُس وقت میں روشنی کا کام کرتے تھے۔ 400 سال قبل کی یہ عمارت اپنے دور کی شاندار عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ ہندوستانی شاعری میں آج بھی اس چوبارے کا ذکر ملتا ہے بلکہ لاہور، ہریانہ اور تقریباً پورے پنجاب میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ "جو سُکھ چھجو دے چوبارے او بلخ نہ بخارے"

 آج کل اس چوبارے کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہاں خواتین کی جائے نماز بنائی گئی ہے۔ اس تاریخی ورثے کو دور حاضر میں بھی مختلف مقدمات کا سامنا ہے کہ اس کو ختم کیا جائے اور ہسپتال کا حصہ بنا دیا جائے لیکن اس چوبارے کو ایک تاریخی مقام حاصل ہے اور ایک ایسے شخص کی یادگار ہے جس نے مذہب سے بالاطاق ہوکر اللہ تعالی کی مخلوق کی خدمت کیلئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ اس تاریخی ورثہ کو نہ صرف مقدمات سے بری کیا جائے بلکہ اسکی دیکھ بھال کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ چوبارے اور چوبارے والے کا نام زندہ رہے۔