غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

image

کردار، عمل اور نتائج کا بالواسطہ تعلق سوچ سے ہے اور یہی سوچ زبان اور الفاظ کے ذریعے ہمارا اصل دکھاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی تقریر سن کر ملک پاکستان کی قسمت پر رونا آیا۔ ہر تجزیہ کار نے اپنے انداز سے اس تقریب کو دیکھا اور تقریر کو سنا لیکن مجھے ذاتی طور پر اس تقریر اور خبرنامے میں ذرہ برابر فرق نظر نہیں آیا۔ وہی سب کچھ انہوں نے بتایا جو ہم نیوزکاسٹر کی زبانی سنتے رہے ہیں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تقریر لکھی ہوئی تھی یا ایک ملک کے سربراہ کو تقریری صفحات سٹیپلر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہاں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ وزیراعظم کے الفاظ، زبان اور باڈی لینگویج ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ آیت کریمہ میں فلاں جگہ غلطی ہوئی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ قرآن کریم انصاف ضرور کرتا ہے۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ عالمی سطح کے اس قدر اہم پلیٹ فارم کو صرف مانگنے، معذرت مجبوری کیلئے استعمال کیا گیا اور نتیجے میں قومی وقار کو مجروح کیا گیا؟ نہ صرف یہی فورم بلکہ اجلاس سے ایک روز قبل ایک امریکی نیوز چینل پر وزیراعظم پاکستان اینکر کو یہ درخواست کرتے نظر آئے کہ آپ اپنے کیمرے کے ذریعے لوگوں کو ہمارے حالات بتائیں تاکہ وہ ہمیں چندہ دیں! اور شہباز شریف کے اس انٹرویو کے بعد امریکہ کے 3 بڑے نیوز چینل نے پاکستان کو "بھکاری" کے لفظ سے پکارا! کیا ملکی غیرت کسی چیز کا نام ہے؟ یا ہمارے رہنماؤں کا غیرت سے کوئی تعلق ہے؟ تف ہے ہماری ایسی پالیسیوں اور ہماری حوس پر...

اب چلیں تقریر کی طرف، جب کسی قوم کا لیڈر بولتا ہے تو اس کے الفاظ سینہ چیرنے کا ہنر رکھتے ہیں مگر مصنوعی سربراہ ہمیشہ ذاتی لالچ اور رسی سے بندھا ہوتا ہے۔ لکھی ہوئی تقریر فلسطینی صدر نے بھی کی لیکن انہوں نے ببانگ دہل اسرائیلی جارحیت، سفاکانہ اقدامات اور اسرائیلی قیادت کو بہترین انداز میں "لتاڑا"۔ شہباز شریف نے سابقہ وزیراعظم کی نقل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن عقل کی کمی نے قومی غیرت کو تحت سراء میں دھکیل دیا۔

وزیراعظم کی 26 منٹ کی تقریر نے سیلابی متاثرین سے ابتداء لی اور اگلے 12 منٹ یہی راگ الاپتے ہوئے گزر گئے، اور التجا کرتے رہے کہ اگر پاکستان کو امداد نہ ملی تو پورا پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے قبل جتنی بھی امداد پہنچی وہ سب کہاں گئی؟ کسے معلوم نہیں کہ سندھ کے بااثر شخصیات کے گھروں سے امپورٹڈ ٹینٹ اور باقی ضرورت کی اشیاء برآمد نہیں ہوئیں؟ کسے نہیں پتا کہ امدادی آن لائن سائٹ کے چوری ہونے کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہیں؟ اور سونے پر سوہاگہ کہ وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے تقریباً 300 ملین ڈالر سیلابی کارروائیوں میں استعمال ہوگئے! پاکستان کا جتنا ترقیاتی فنڈ تھا وہ بھی متاثرین پر لگا دیا! جب اس تمام سچ سے بھی پیٹ نہیں بھرا تو کہا کہ "میں بذات خود متاثرہ علاقوں کے کونے کونے تک گیا" اور یہ وہ لمحہ تھا کہ جب جھوٹ کو بھی حیاء آگئی اور گلا خراب ہوگیا۔ حتی کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک ایم این اے نے کشتی میں بیٹھ کر سیلاب متاثرین سے ہاتھ ملانا بھی ناگوار سمجھا! خاندان عظیمیہ اتنا صادق ہے کہ اپنے آپ کو"کھرا" ثابت کرنے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو مطمئن کرنے کیلئے آن کیمرہ التجا کرنا پڑی کہ آپ یا آپ کے توسط سے جو مدد بھی ملے گی اس کے ایک ایک پیسے کا حساب کتاب شفاف رکھا جائے گا۔ ایک مرتبہ پھر تف، کیا انہیں آپ لوگوں کے کردار کا نہیں پتا؟ 

موجودہ وزیراعظم سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیا اس پلیٹ فارم پر عالم اسلام اور پاکستان کا یہ مؤقف بیان کیا جانا چاہیے تھا؟ کیا تقریر میں انڈیا کی ہٹ دھرمی کا صرف ذکر کرنا ہی مقصود تھا یا پھر کلبھوشن یادؤ کیس کو بھی ہائی لائٹ کرنا تھا؟ انڈیا میں ہونے والے مسلم کش نظریات کو کس نے دنیا کے سامنے رکھنا تھا؟ آر ایس ایس کا نام تو یقیناً یاد ہوگا ان کو، چلیں نام ہی سے کس نے اس انتہاپسند جماعت کے تشدد اور کھلی چھوٹ کو پوائنٹ آوٹ کرنا تھا؟ بھارت میں مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کی تحریکوں کو کس نے اجاگر کرنا تھا؟ آج کے اس جدید دور میں مسلم خواتین سٹوڈنٹس کو ہراساں کرنے والے واقعات کو کس نے اقوام عالم کے سامنے رکھنا تھا؟ عمران خان کو کاپی کرکے کشمیر پر بھی بات ہوئی مگر اس انداز میں جیسے ناظرین کو ایک خبر دی جارہی ہو! کیا مودی کی غلیظ سوچ کو بیان نہیں کرنا تھا کہ آزادی کی تحریک کے بانیان کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ وہ جو زندہ ہیں مگر لاش کی مانند وہ جو شہید ہوئے ان کے جنازوں کے ساتھ کیا کیا گیا؟ غیرقانونی غاصبانہ قبضہ پرانا ہوچکا، آئے روز نوجوانوں کی شہادتوں کی خبریں بھی نہ ملیں وزیراعظم کو؟ یقیناً ملی ہوں گی لیکن ذاتی تعلقات، ساڑھیوں کا لین دین اور شادیوں پر مہمان نوازی کیسے ہوتی پھر؟ ایک اور اہم بات کہ اسرائیل پر بھی اس لئے کھل کر نہیں بولا گیا کہ یہ چھپ چھپا کر ناجائز تعلقات بنانا چاہتے تھے کبھی وفد امریکہ میں مل رہا ہے، کبھی پاکستان میں خوش آمدیں برپا ہیں، کبھی اسرائیل کا سرکاری اخبار ان سے پردہ اٹھا رہا ہے، کبھی ان کے "جُھنڈ" پی ڈی ایم کا صدر کہتا ہے کہ اسرائیل پر سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہودی عمران خان!!!

عمران خان تو وہ شخص تھا کہ اس نے اس فورم پر پاکستان کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا مقدمہ لڑا، اگر اس کی تقریر کو کاپی کرنا ہی مقصود تھا تو منی لانڈرنگ کو کیوں بھول گئے صاحب؟ یقیناً اگر اس پر بات کرتے تو خود کہاں جاتے؟ پاکستان کی معیشت جائے بہاڑ میں انہیں اس سے کیا؟ اسلاموفوبیا کا سرسری ذکر کیا تو کیا حق ادا ہوگیا؟ اسرائیل، کینیڈا، آسٹریلیا، ڈنمارک اور خود امریکہ کس بے رحمی سے اسلام کو دہشت گرد مذہب سے جوڑ رہے ہیں وہ کس مخلوق نے دنیا کو بتانا تھا؟ لیکن بقول ان کے کہ پاکستان کی ان پڑھ اور جاہل قوم کو کون سمجھائے کہ بھکاری کبھی اپنی مرضی نہی کرسکتا؟ میانمار، فلسطین، شام، سریا میں حالات قابو میں ہوگئے کہ انہیں یاد تک نہ کیا گیا؟ بہرحال میری آواز جہاں تک پہنچ رہی ہے صرف ایک گزارش ہے کہ ان جیسے مذہب فروشوں، وطن فروشوں اور انسانیت کے بیوپاریوں کو دیکھ بھال کرچنیں وگرنہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی "بھکاری" کا لیبل لگنے سے کوئی روک نہ سکے گا۔