ہماری بے چاری عدلیہ
دی ویووز نیٹ ورک: دوسری عالمی جنگ کے وقت ونسٹن چرچل برطانیہ کے وزیرِاعظم تھے۔ جنگ کے آغاز میں جب کسی نے ان سے پوچھا کہ ملک کا کیا بنے گا تو انہوں نے کہا کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ اگر انصاف ہو رہا ہے تو آپ ملک کی فکر چھوڑیں، ملک کہیں نہیں جا رہا۔ وطنِ عزیز کی عدلیہ نے چند روز قبل اپنی تاریخ کا اہم سنگ میل طے کر لیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 جج صاحبان کی طرف سپریم جوڈیشنل کونسل کو ایک خط لکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ خفیہ ادارے ہمارے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرنے دیے جاتے۔ اس حوالے سے ہماری رہنمائی کی جائے کہ ان خفیہ اداروں سے کیسے نمٹا جائے۔
اس خط میں چند بڑی باتیں ہوئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس میں کہا گیا کہ ہمیں مختلف طریقوں سے تھریٹ کیا جاتا ہے، اپنی مرضی کے فیصلے لکھوانے کیلٸے ہمارے ایک جج کے رشتہ دار کو اغواء کیا گیا اور اس کو الیکٹرک کرنٹ لگایا گیا اور نتیجے میں اُس جج صاحب کو فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اِسی طرح ایک صاحب کو پریشرائز کرنے کیلئے اس کی رہائش گاہ پر پٹاخے پھینکے گئے اور ایک جج کی رہائش گاہ پر اس کے ماسٹر بیڈ روم میں خفیہ کیمرے لگائے جن میں ایک سِم کارڈ بھی تھا اس کا مطلب تھا کہ نجی زندگی کی ویڈیو ریکارڈ ہو کر کہیں جا رہی تھی۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اِن حالات سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ کہا کہ میں نے آئی ایس آئی چیف کو کال کر دی ہے آئندہ وہ آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔
چند روز قبل ایک اور اہم فیصلہ بھی آیا اور وہ یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی، جن کو 2018ء میں اسی سپریم جوڈیشنل کونسل نے اپنے عہدے سے اس لیے ہٹا دیا تھا کہ وہ ان خفیہ اداروں کے پریشر میں نہیں آ رہے تھے، ان کو سابق جج کا اسٹیٹس دے دیا ہے۔ انہوں نے ایک پروگرام میں واشگاف الفاظ میں نام لے کر یہ کہا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض مجھے اس بینچ سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے جس نے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ سنانا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کے اِن الزامات کی تحقیق کی جاتی لیکن ان کو سپریم جوڈیشنل کونسل نے بغیر تحقیق کے اپنے عہدے سے ہٹا دیا۔
اِس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد، جس میں شوکت عزیز صدیقی کو انصاف ملا ہے، ہم پر پریشر بہت بڑھ گیا ہے۔ ویسے یہاں پر اس بات کا اندازہ لگائیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج کو انصاف ملتے ملتے 5 سال لگ گئے تو میرے جیسا ایک عام بندہ اپنی ان مجبور عدالتوں سے کیا توقع رکھے۔ مجھے جو خط میں سب سے زیادہ مزے کی بات لگی ہے وہ یہ کہ جج صاحبان کی طرف یہ پوچھا گیا کہ کیا خفیہ اداروں کی یہ مداخلت ماضی سے چلی آرہی ہے یا ابھی کل پرسوں شروع ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان شودے ججوں کو یہ نہیں پتہ کہ جسٹس منیر کیس کیا تھا؟ ان کو نہیں پتا کہ 1960ء میں نظریہ ضرورت کیا تھا؟ جس میں گورنر جنرل کو پارلیمنٹ سے زیادہ اختیار دے دیے گئے اور اِن شودوں کو نہیں پتہ کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے میڈیا میں آ کر یہ کہا تھا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ ہم سے پریشر میں کروایا گیا۔
اِس خط کے جواب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف جن کو فارم 47 کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز کیا گیا ہے، سے ملاقات کی اور اب ایک رکنی جوڈیشنل کمیشن بنا دیا گیا جو اس معاملے کی تحقیقات کرے گا اور اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق گیلانی کو لگایا گیا لیکن انہوں نے شہباز شریف کو خط لکھ کر اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ان 6 ججز کا اعتراض بھی ایگزیکٹو پر ہے تو ایگزیکٹو کا بنایا گیا کمیشن ان کو کیسے انصاف دے سکتا ہے؟ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے جو 3 اپریل کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔
میرے ملک کے محافظو! میں روز 100 روپے کماتا ہوں جن میں 60 روپے میں اپنا ادھار دیتا ہوں جو میرے ملک کے حکمرانوں نے میرے نام پہ لیا اور 15 روپے میں آپ کو دیتا ہوں۔ میرے پیسوں کا کیا یہی صحیح استعمال ہے کہ آپ اُن سے کیمرے خرید کر میرے گھر پر لگاٸیں اور میری نجی زندگی کو ریکارڈ کر کے مجھے بلیک میل کریں؟ کیا آپ اپنے آپ کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں؟ آپ پر کوٸی قانون اپلائی نہیں ہوتا؟ کیا ایسا کرنے سے قوم کے دلوں میں آپ کیلئے عزت بڑھ رہی ہے یا نفرت؟ کیا آپ کا کام ہمیں دشمنوں سے بچانا ہے یا ہماری ویڈیو بنانا ہے؟ اور آخری سوال کہ وہ کیا عظیم سوچ ہے کہ جو آپ کو میرے بیڈ رومز میں خفیہ کیمرے لگانے پر مجبور کرتی ہے؟ پاکستان کی قوم کو اِن سوالوں کے جواب ضرور مہیا کیجئے گا۔
پاکستان زندہ باد