غلام ابن غلام ابن غلام.....
دی ویووز نیٹ ورک: 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد ملک تو دے گئے لیکن نوزائیدہ ملک کی پرورش نہیں کر سکے اور محض ایک سال بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے جاتے ہی جو خواری اور ذلت اس قوم کے انتظار میں تھی اس نے اس ملک کو دبوچ لیا۔ اس ذلت نے اس ملک میں ایسے قدم جمائے کہ پھر وہ مڑ کر نہیں گئی اور وہ ذلت تھی غلامی کی۔ اس ملک کی عوام بھی اور حکمران جغرافیائی طور پر تو آزاد ہو گئے ہیں لیکن ذہنوں کی غلامی سے آزادی نہیں حاصل کر پائے۔ ہمارے عوام کے ذہن ان کے لائف سٹائل سے مرعوب ہوئے جو کہ آج تک ہیں اور ہمارے حکمران ان کے پالتو بن گئے۔
ہمارے آقاؤں میں سب سے بڑا آقا امریکہ بہادر ہے جن کی غلامی کا دم بھرتے ہیں اور حکمران اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی غلامی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہم امریکہ کے کہنے پر کوے کو سفید ماننے پر تیار ہیں۔ آج امریکہ ہی ہے جو ہماری معیشت کو ہماری اندرونی سیاست کو اور ہماری خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہم نے اگر کسی ملک سے رابطہ جوڑنا ہے یا توڑنا ہے تو اپنے آقا کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ امریکہ کس طرح ہمارت معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے اور کیسے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔ آپ ایک چھوٹی سی مثال سے ملاحظہ کریں۔
پاکستان میں جتنی بھی انرجی بن رہی ہے اس کا 48 فیصد نیچرل گیس سے بنتی ہے اور اس 48 فیصد کا 30 فیصد درآمد شدہ گیس ہے۔ یعنی پہلے ہم گیس درآمد کرتے ہیں پھر اس سے اور پھر اس سے انرجی بناتے ہیں۔ ہماری گیس کی ٹوٹل ڈیمانڈ 6۰8 بلین کیوبک فٹ ہے اور پیداوار تقریباً 3 بلین کیوبک فٹ ہے۔ ہر سال گیس کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیس کے بلز میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اب بلز ہزاروں ہیں آنا شروع ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے 2013ء میں ایران کیساتھ گیس درامد گی کا معاہدہ کیا جس کو پاک۔ایران گیس پائپ لائن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر مختصر یہ کہ آج 11 سال گزر جانے کے بعد پاکستان ابھی تک اپنی طرف سے جو انفراسٹرکچر بنانا تھا وہ نہیں بنا پایا۔ ابھی پاکستان نے اپنی سائیڈ سے 80 کلومیٹر کا حصہ بنانے کیلئے 200 ملین ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس خبر کے آتے ہی ہمارے آقا کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے ہمیں شٹ اپ کال دیتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور ہمیں یہ معاہدہ مکمل نہ کرنے کی تنبیہ کی۔ پاکستان نے ایران سے ستمبر 2024ء تک اس پائپ لائن کو مکمل کرنے کی مہلت مانگی ہوئی ہےہے اور اگر ہم نے ستمبر تک اس کو مکمل نا کیا تو ایران نے 18 بلین ڈالر جرمانے کی دھمکی ہمیں دے دی ہے۔
امریکہ بہادر کرتا کیا ہے؟ وہ ہمارے جیسے ملک کو پیسے کی صورت میں، امداد اور ادھار کی صورت میں اپنا قید کرتا ہے اور پھر اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔ پاکستان نے جو اس منصوبے کی تکمیل کیلئے جو 200 ملین ڈالر لگانے ہیں وہ آئی ایم ایف سے آئیں گے اور آئی ایم ایف اور امریکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ وہ کیسے آپ کو اپنے پیسے آپ کی مرضی سے لگانے دے گا۔ ہم ہر وقت یہ سنتے رہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم پاکستان میں مذاکرات کیلئے آئی ہے تو ہماری کیا چیزیں ڈسکس ہوتی ہیں۔ یہی کہ کیا مہنگا کرنا ہے؟ کتنا مہنگا کرنا ہے؟ کس چیز پر کتنا ٹیکس لگانا ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اور ہمارے حکمران "سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے" کے مصداق بنے رہتے ہیں۔
امریکہ ہم پر یہ بات مسلط کروانا چاہتا ہے کہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کے بڑے غمخوار ہیں۔ آپ نے ادھر ادھر نہیں جانا اور یہ بات وہ بزور بازو منوا چکا ہے۔ اس نے ریجن میں ہمیں اکیلا کر دیا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہیں۔ روس سے ہمیں تیل لینے سے منع کر دیا ہے۔ ایران کے ساتھ حالات خراب ہوں گے اگر ستمبر تک یہ کام پورا نہیں ہوا۔ ادھر سی پیک ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ہمارے دوست ممالک ہمیں تب تک کچھ نہیں دیتے جب تک ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل نہ ہو جائے اور آئی ایم ایف کی ڈیل میں ہم سے کیا کچھ منوایا جاتا ہے ہمارے معاشی و معاشرتی حالات اس بات کے گواہ ہیں۔ حالات اتنے مایوس کن ہو گئے ہیں کہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اور مایوسی کی اس گرد میں ہاتھ پر ہاتھ نظر نہیں آتا لیکن یہ جو آپ گرس دیکھ رہے ہیں خدا کی قسم! اس گرد کے پیچھے نقاب پوش شہسوار اعظم اور اس کا لشکر پوری شان کے ساتھ آرہا ہے۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد