مغربی فیشن کی یلغار، فیشن، اہل مغرب اور ہم پاکستان جدید فیشن اور اہل مغرب کی تقلید
دی ویووز نیٹ ورک: فیشن آج کے دور میں ایک عالمی صنعت بن چکا ہے جس کی مالیت کم و پیش اربوں ڈالر ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عالمی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے، لیکن ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ فیشن صرف کپڑوں، جوتوں، زیورات، اور لوازمات سمیت ان اشیاء کے پہننے اور استعمال کرنے کے طریقوں کا مجموعہ ہے جو نہایت مقبول ہیں۔ یہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور مختلف ثقافتوں اور سماجی گروہوں سے متاثر ہو سکتا ہے اور یہی فیشن ہمارے تہذیب وتمدن پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ فیشن ظاہر کرتا ہے کہ ہم کون ہیں، ہم کس چیز کی پرواہ کرتے ہیں،کیا سوچتے ہیں اور ہم معاشرے میں کیسا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری شناخت، اقدار اور عقائد کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ بھی ہو سکتا ہے، فیشن معاشرے کو کئی طریقوں سے متاثر بھی کر سکتا ہے۔ یہ سیاسی اور سماجی تحریکوں کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ثقافتی شناخت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ روایتی کپڑے پہن کر اپنے نسلی یا مذہبی ورثے کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ نوجوان اپنی ثقافت سے وابستگی کا اظہار کرنے کیلئے مخصوص انداز اپناتے ہیں۔ اس کے علاؤہ فیشن کا استعمال سماجی درجہ بندی کیلئے بھی کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مہنگے ڈیزائنر کے کپڑے پہننا انسان کی دولت اور حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح مخصوص قسم کے کپڑے بھی کسی خاص پیشے یا سماجی گروہ سے وابستگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ فیشن کے نام پرجو بھی نیا طریقہ ایجاد ہوتا ہے اُس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک صورت تو حادثاتی فیشن ہے جو بہت مشہور ہے اور میری طرح آپ نے بھی اس کا باخوبی مشاہدہ کیا ہوگا۔
اس کی مشہور مثال یہ کہ کسی درزی سے کٹائی یا سلائی میں کوئی غلطی ہو گئی تو اُس نے سوچا اگر میری یہ غلطی ظاہر ہو گئی تو میری شہرت پر حرف آئے گا اور مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑے گا۔ لہٰذا درزی نےاپنی غلطی پر فیشن کا پردہ ڈال دیا۔ وہ نہ صرف نقصان سے بچ گیا بلکہ ایک نئے فیشن کا مؤجد یا تعارف کروانے والا بھی کہلانے لگا۔ فیشن کی دوسری صورت وہ ہے جس میں باقاعدہ تحقیق و جدوجہد کے بعد کوئی فیشن منظرِ عام پر لایا جاتا ہے اور اتنا بڑا کارنامہ لوگوں کو دکھانے کیلئے تقریبات اور شوز وغیرہ بھی منعقد کئے جاتے ہیں اور انہیں شوز میں فیشن کی آڑ میں اُس بے حیائی اور عریانی کو بھی خوب فروغ دیا جاتا ہے جس کو پھیلانے میں فیشن نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا ان فیشنوں کو اپنانے والے فیشن پرستوں میں بھی یورپ کی تقلید کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ یوں تو اس فیشن پرستی میں مرد بھی کسی سے کم نہیں لیکن عورتیں کو اس فن میں زیادہ خصوصیت و مہارت حاصل ہے۔ فیشن کو پھیلانے والے فیشن پرستوں کو مختلف طریقوں سے اُلّو بناتے رہتے ہیں اور اس کے سبب لوگ بہت سے خرافات اور گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا ضروری ہوگا کہ فیشن ایک طاقتور قوت ہے جو ہماری زندگیوں اور ہماری دنیا کو بہت سے طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ یہ ایسی قوت تھی جو ہمیں ہماری ثقافت کو دنیا میں ظاہر کرنے، اپنے عقائد کا اظہار کرنے اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے جڑنے کا ایک ذریعہ تھی لیکن افسوس آج امت مسلمہ نے یورپ اور مغرب کی اندھی تقلید میں اپنی ثقافت، تہدیب و تمدن سب کچھ کھو دیا۔
آج کل کے دور میں انسان کو دنیا میں موجود چیزوں کے حسن اور خوبصورتی کا احساس ہو نہ ہو، لیکن اپنے حسن و جمال کا وہ قائل ہے، نہ صرف قائل ہے بلکہ دوسروں لوگوں کو قائل کرنے، اس سے پیسہ کمانے، کاروبار چمکانے، اپنی سوچ اور نظریات کو پھیلانے، جذبات کو بہکانے یا بھڑ کانے کیلئے وہ ’’حسن‘‘ کا بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ اس کیلئے باضابطہ طور پر فیشن انڈسٹری کا نام متعارف کروایا گیا ہے جو ان گنت رسالوں، مختلف ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ، اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ نشوونما پا رہی ہے۔ خاص طور پر فلم اور ڈرامے کی دنیا میں حسن اور فیشن کے مقابلے سے اس کو اور ترقی ملی ہے۔ جدید فیشن کا رجحان نوجوان نسل پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ فیشن انڈسٹری کا اصل ہدف ہی نوجوان ہیں جو انھیں جدید مصنوعات کی طرف توجہ دلانے کیلئے ماڈلس، ادا کاروں اور کھلاڑیوں کا سہارا لےکر ان مصنوعات کو نیوٹرنٹس میں شامل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل اپنے آپ کو ترقی یافته یا ماڈرن کہلانے کے جوش میں ان مصنوعات کو خریدتے ہیں اور اس طرح نوجوانوں کی خواہشوں اور آرزؤں کا استحصال کر کے صنعت کار، اداکار، ٹیلی ویژن، رسائل و اخبارات دولت سمیٹ رہے ہیں۔
آج کا نوجوان فیشن انڈ سٹری کا اہم صارف بن چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نوجوان اپنے آپ کو منفرد کہلانے شہرت کی آڑ میں طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے، کبھی وہ کپڑے اتنے چھوٹے پہنتا ہے کہ جسم نظر آنے لگتا ہے، یا کپڑوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر یہ آرزو پوری کرلیتا ہے۔ کبھی مرد عورتوں کی طرح خوش رنگ لباس پہن کر، لمبے بال رکھ کر کان یا ناک میں بالی پہن کر مرکز توجہ بننا چاہتا ہے، تو کبھی عورتیں اپنے احساس کمتری کو دور کرنے کیلئے مردوں کے چال ڈھال اپناتی ہیں۔ نوجوان نسل میں فیشن کی وجہ سے تقلیدی اور مرعوب ذہنیت پیدا ہورہی ہے۔ وہ کسی ادا کار، کھلاڑی یا ماڈل کو دیکھ کر اس کی تقلید کو باعث فخر سمجھتے ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی تخلیقی صلاحیت ختم ہو رہی ہے، وہ اپنے آئیڈیل کے رنگ و روپ ہی نہیں حرکات و سکنات کی بھی نقل کرنے لگے ہیں۔ اس کو ذہن پر سوار کرکے ایک تصوراتی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔ اس طرح وہ خود سے اور حقیقت سے دور ہوتے چلےجارہے ہیں۔
دنیا جہاں اب ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا ناممکن نہیں رہا اسی طرح فیشن بھی کسی خاص علاقے یا خطے تک محدود نہیں رہا، جسے جو فیشن پسند آتا ہے اپنا لیتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں عورتوں کا حجاب پہننا تو کیا ہمارا لباس، زبان، کھانا پینا، اوڑھنا بچونا سب کا سب انگریزوں کی طرز پہ ہے۔ یہاں ماڈرن دور میں حجاب تو کیا دوپٹے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، جبکہ عربی اور ترکش حجاب آج کل دنیا کے بیشتر خطوں میں مقبولیت کے حامل ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہوں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پردہ عورت کی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہا۔ حجاب فیشن کے تقاضوں کو بھرپور انداز میں پورا کرسکتا ہے اور یہ دنیا بھر میں مسلمان خواتین کی منفرد پہچان بھی ہے۔ اگرچہ اہلِ مغرب پردے کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں تاہم مسلمان خواتین ان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی پردے کی اس روایت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں اور حجاب کے ساتھ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں بلکہ حجاب والی لڑکیاں خود اعتمادی سے ہر شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
مغربی ثقافت، خاص طور پر امریکی طرز زندگی، پاکستان میں تیزی سے اپنا اثر ڈال رہی ہے۔ یہ اثر نوجوان نسل میں زیادہ واضح ہے، جو مغربی اقدار اور رسم و رواج کو اپنانے کیلئے پرجوش ہیں۔ تاہم، اس ثقافتی تبدیلی کے منفی نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، خاندانی اقدار کمزور ہو رہی ہیں اور بچے اپنے بڑوں کا احترام کم کر رہے ہیں۔ مغربی معاشروں میں، بچے عام طور پر 18 سال کی عمر میں گھروں سے الگ ہو جاتے ہیں اور خود مختار زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے علاؤہ بوڑھے والدین کو اکثر اولڈ ہومز میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ان کی دیکھ بھال پیشہ ور افراد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستانی ثقافت میں، خاندان ایک مضبوط اکائی ہے اور بچوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام کریں اور ان کی دیکھ بھال کریں۔ بوڑھے والدین اکثر اپنے بچوں اور پوتوں کے ساتھ رہتے ہیں اور انہیں خاندان کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی روایتی خاندانی اقدار کو برقرار رکھنے اور ان کی حفاظت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ہماری ثقافت کی بنیاد ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اپنے بڑوں کا احترام کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا سکھانا چاہیے۔ ہمیں بوڑھے والدین کو اپنے خاندانوں کا ایک اہم حصہ سمجھنا چاہیے اور ان کی دیکھ بھال اور مدد کرنی چاہیے۔