مسلمان کھیل کے میدان میں سجدہ ریز ہوں تو میدان جنگ

image

 

 

سجدہ ایک اسلامی اصطلاح ہے اس میں سر کو زمین پر رکھتے ہیں۔  سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی کیا جاتا ہے۔ مسلمان نماز میں بھی سجدہ کرتے ہیں۔ چند دنوں پہلے قطر میں فیفا ورلڈ کپ کا آغاز ہوا، ورلڈ کپ کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے شروع ہوا۔ ورلڈ کپ میں تقریباً پوری دنیا کی مشہور و معروف ٹیموں نے حصہ لیا۔ سب جانتے ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ پوری دنیا میں مقبول ہو گیا ہے، دنیا بھر کے تماشائیوں نے بھی رونقیں بخشی ہیں اور خوب لطف اندوز ہوئے، یہ بھی دیکھا گیا کہ تقریباً ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والی ٹیمیں موجود تھیں جیسا کہ مراکش، ارجنٹائن اور فرانس وغیرہ۔

کچھ یوں ہوا کہ فرانس اور ارجنٹائن کا آخری اور فائنل میچ تھا تو میسی نے 2 گول کرتے ہی خوشی سے اپنے ہاتھ سے سینے پہ صلیب کا نشان بنایا اور شکرانے کے طور پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں فضا میں بلند کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ہمارے ہاں کسی کے ماتھے پہ بل تک نہ آیا اور نہ ہی کسی نے تنقید کے پہاڑ توڑے۔ اگر کوئی مسلمان کھلاڑی اپنی کامیابی کے بعد شکر ادا کرنے کیلئے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ہمارے بہت سے لبرل میدان جنگ میں اتر جاتے ہیں کہ یہ کھیلوں میں اپنے مذہب کو کیوں لے آتے ہیں؟

اسی ورلڈ کپ میں جب مراکش کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچی تو انہوں نے بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدے کیے، جب فرانس سے ہارے تب بھی انہوں نے ایسا ہی کیا بلکہ فلسطینیوں کے حق میں جھنڈے بھی لہرائے۔ ہمارے ہاں ایسا المیہ ہے کہ کھیل کا میدان ہو یا کوئی ایونٹ، ہم نے اپنے مذہب یا عقیدے کی بات نہیں کرنی کیونکہ دوسرے ملک والے کیا کہیں گے کہ کھیل کے میدان میں ہی خدا پرست ہیں، اب ہمارے ہاں عقیدے اور مذہب کی بات کو اتنا فوکس نہیں کیا جا رہا جتنا سیاست کو فوکس کیا جا رہا ہے، جب مذہب اور عقیدے کی بات آئے تو ہمارے لبرل یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان کیوں شرماتے ہیں؟ لبرل کیوں ایسا کرتے ہیں؟ کب تک شرماتے رہیں گے؟ اور کب تک لبرل کی باتیں سنتے رہیں گے؟ جب تک ہم اپنے عقیدے کو آگے نہیں رکھیں گے، اس وقت تک مسلمان قوم ذلیل و رسوا ہوتی رہے گی، اس لیے مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں، بم بلاسٹ کے ذریعے اڑایا جا رہا ہے، کسی جگہ پر قتل عام کیا جا رہا ہے، وہ ہمیں دیکھ کر ہمارے عقیدے کو اپناتے لیکن ہم اپنے عقیدے کو چھپاتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ سیاست ہو یا کوئی بھی ایونٹ ہو، ان سب سے پہلے اپنے عقیدہ کو سامنے رکھیں، چاہے لبرل ہوں یا غیر مسلم ہوں، کسی کی پرواہ کیے بغیر اللہ کا شکر ادا کرنے کیلٸے گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ فرط مسرت سے سجدہ ریز ہونا چاہئیے۔

کوئی بھی قوم یا ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب وہ اپنے عقیدے کو سب سے آگے رکھتا ہے، اگر ہم نے ایسا طریقہ اپنا لیا تو پوری دنیا دیکھے گی، کہیں بھی قتل عام نہیں ہوگا، ظلم وجبر نہیں ہو گا بلکہ پوری دنیا اس نظام کو دیکھ کر متاثر ہو گی، ہر طرف سے اسلام کا پرچار ہو گا مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی آرام اور سکون سے رہیں گے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لٸے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر