برطانیہ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے بعد سب سے بڑا احتجاج

image

اجرت میں اضافے کیلئے کیے گئے احتجاج میں 5 لاکھ سے زائد افراد کی شرکت، ہڑتال کی وجہ سے اسکول بند ہو گئے اور ٹرانسپورٹ شدید متاثر ہوئی، برطانیہ کی مزدور تنظیم ٹریڈز یونین کانگریس (ٹی یو سی) نے اسے 2011ء کے بعد ہڑتال کا سب سے بڑا دن قرار دیا ہے۔ 

لندن: برطانیہ میں تقریباً 12 سال بعد سب سے بڑا احتجاج کیا گیا ہے۔ مظاہرین نے اُجرت میں اضافے کیلئے ہڑتال کی جس کے باعث تعلیمی مراکز بند ہو گئے اور ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ برطانیہ کی مزدور تنظیم ٹریڈز یونین کانگریس (ٹی یو سی) نے اسے 2011ء کے بعد ہڑتال کا سب سے بڑا دن قرار دیا ہے۔ حالیہ احتجاج فرانس میں 12 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کے سڑکوں پر آنے کے ایک روز بعد شروع ہوا جہاں پینشن اصلاحات کے منصوبوں پر عمل پیرا فرانسیسی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ برطانوی وزیرِ اعظم رشی سوناک نے تنخواہوں میں اضافے کو معقول اور مناسب قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تنخواہوں میں بڑا اضافہ مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کو ناکام بنا دے گا۔ 

یاد رہے کہ مزدور یونینز نے کروڑ پتی رشی سوناک پر الزام لگایا کہ وہ عام مزدور لوگوں کو درپیش چیلنجز سے آگاہ نہیں ہیں جو کم تنخواہ، کام سے متعلق عدم تحفظ اور بڑھتے اخراجات کی وجہ سے ضروریات زندگی پوری کرنے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ احتجاج میں اساتذہ اور ٹرین ڈرائیورز میں شامل ہونے والے تازہ ترین گروپ ہیں، اس کے علوہ برطانیہ کی ہوائی اور بندرگاہوں پر سرحدی فورس کے کارکنان بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے ہیں۔ لندن کے 57 سالہ استاد نائیجل ایڈمز نے سینٹرل لندن میں مارچ کرنے والے ہزاروں اساتذہ کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے کہا کہ کام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری تنخواہ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تھک چکے ہیں، ہم اور ہمارے بچے بھی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’تنخواہ بڑھاؤ‘، ’ہم آپ کے بچوں کو ترجیح نہیں دے سکتے اگر آپ ان کے اساتذہ کو ترجیح نہیں دیں گے‘ کے نعرے درج تھے۔

اس ہڑتال کے اعلان کے بعد ایک ادارے کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق برطانوی عوام کی کافی بڑی تعداد اپنی رائے میں منقسم اور کافی حد تک ہڑتالی ملازمین کی حامی بھی ہے۔ اس سروے میں 40 فیصد رائے دہندگان نے اس ہڑتال کی حمایت کی جبکہ 38 فیصد رائے دہندگان نے اسے غلط اقدام قرار دیا ہے۔ برطانیہ میں مختلف شعبوں کے کارکنوں کی ٹریڈ یونینوں کی نمائندہ ملکی تنظیم ٹریڈز یونین کانگریس کے جنرل سیکرٹری پال نوواک کا کہنا ہے کہ ہماری تنخواہوں میں برسوں تک ظالمانہ کمی کے بعد، ملک بھر میں نرسوں، اساتذہ اور کئی ملین دیگر پبلک ملازمین کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اپنی تنخواہوں کے حوالے سے ہمیں مستقبل میں اور بھی بری صورت حال کا سامنا رہے گا۔ پال نوواک نے کہا کہ ہمارے ہڑتال کے حق پر حملوں کیلئے نئے راستے تلاش کرنے کے بجائے حکومت اور وزراء کو ملک بھر میں کارکنوں کی تنخواہیں بڑھانی چاہئیں، خاص طور پر پبلک سیکٹر ملازمین کی تنخواہیں، جن میں مناسب حد تک اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔