نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے آئی ہے، مدت میں توسیع کرنا جمہوریت قربان کرنا ہے، جسٹس اعجازالحسن

image

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگراں حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کیلئے شامل کی گئیں، شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے، شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 90 روز کا مداوا ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے منتخب حکومت آجائے، کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟ کب تک انتخابات ملتوی کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک کو منتخب حکومت چلا سکتی ہے، جہموریت کو بریک نہیں لگائی جاسکتی۔

سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کم نہیں کرسکتے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے پوچھا کہ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟ اب تک کے نکتے نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بعض معاملات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے، توہین عدالت کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔

سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ انتخابات کیلئے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے، نگراں حکومت کی تعیناتی کا طریقۂ کار آئین میں ہے، نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، یہ پابندی انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر لگائی گئی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے پوچھا کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے 4 سال نگراں حکومت رہے گی، کیا ساڑھے 4 سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟ سجیل سوات نے دلائل دیئے کہ ساڑھے 4 سال نگراں حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرے گی، آئین کے ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلائیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کرکے فائر کریں پتہ تو چلے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کردیا۔ سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ انتخابات کیلئے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے، نگراں حکومت کی تعیناتی کا طریقۂ کار آئین میں ہے، نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، یہ پابندی انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر لگائی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دن کی تاخیر کا مداوا ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے منتخب حکومت آجائے، کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے؟ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں۔