ساٸبر کراٸم

image

دی ویووز نیٹ ورک: سائبر کرائم کیا ہے؟ یہ جرائم کتنی قسم کے ہو سکتے ہیں؟ کیا کاروباری نقصان بھی ہو سکتے ہیں؟ سائبر کرائم کا سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے خاص طور پر جو انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں سائبر کرائم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ادارے کی ساخت، شخص یا معلومات کو بے حد نقصان پہنچانا یا کسی کا مواد چرا لینا یا اس میں رد و بدل کر دینا ہے۔ اس کے علاؤہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کسی بھی اداروں کو دھمکانا بھی اس میں موجود ہے۔ جرائم مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں جیسے کہ سوشل میڈیا فراڈ، ڈیٹا چرانا، رشوت و بھتہ خوری، ڈیجیٹل جعل سازی، ہیکنگ، بچوں کی فحاش نگاری اور سائبر اسٹاکنگ وغیرہ۔

انسان دن بدن ترقی کر رہا ہے لیکن انٹرنیٹ اور کمپیوٹر یا جدید ٹیکنالوجی سے رہن سہن اور سوچ کا زاویہ بالکل بدل چکا ہے، گزشتہ ایک دہائی سے ابلاغی ٹیکنالوجی نے دنیا کو حقیقی معنی میں عالمی گاؤں بنا دیا ہے جس طرح ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے اسی طرح سائبر کرائم نے بھی عروج پکڑ لیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 94 فیصد لوگ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، سمارٹ فون کے ذریعے تقریباً 91 فیصد لوگ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں، 30 فیصد لوگ آفس میں ملازمت کی جگہوں پر انٹرنیٹ جبکہ 71 فیصد لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ پر میسر کردہ آلات سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں حملوں کی نوعیت نے بھی پانسہ پلٹ لیا ہے جس طرح گھوڑوں کی جگہ ٹینکوں اور تلوار کی جگہ مزائل نے، اسی طرح میدان جنگ میں افراد کا ہونا لازمی نہیں رہا، اب وہ تمام حملے انٹرنیٹ کے ذریعے ہو رہے ہیں جو کاروباری، مالی اور شخصی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سائبر حملے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کسی کے اثاثوں کو چوری کرنے، تبدیل کرنے، بے نقاب کرنے یا پھر تباہ کرنے کے ارادے سے کیے جاتے ہیں۔ سائبر حملے سیاسی انتقام کی وجہ سے بھی کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح 2021ء میں فلوریڈا کے ایک علاقے کے اندر پانی کی فراہمی نظام کو ہیکرز نے ہیک کر لیا اور اس میں ہاٸیڈروجن پر آکسائیڈ کی مقدار کو بڑھانے کیلٸے سازش کی گئی تھی جو اخر کار بے نقاب ہوئی۔

سائبر حملوں کے ذریعے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جیسے کہ پاکستان کے گلوکارہ نے مرد گلوکار پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا مگر سائبر قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے الزامات ثبوت نہ ہو سکے اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 10 میں سے چوتھی امریکی شہری آن لائن ہراسانی میں گرفتار ہیں پاکستان میں بھی کرونا لاک ڈاؤن کے دوران ان لائن ہراسگی کیسوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔

ایسے سنگین الزامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انٹرنیٹ صارفین کیلٸے سائبر سکیورٹی کا انتظام کیا جائے تاکہ سائبر جرائم سے بچا جا سکے، صارفین تسلی کے ساتھ آن لائن کام بھی کر سکیں۔ عالمی سطح پر بھی سائبر سیکیورٹی کے قوانین نافذ کیے جائیں، کچھ ایسے ممالک ہیں جنہوں نے سائبر کرائم کو قابو کرنے کیلٸے فریم ورک تیار کیا، اقوامِ متحدہ کا ادارہ آٸی ٹی یو بھی کٸی جہتوں سے اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے جیسے آئی ٹی یو ڈی سیکورٹی پروگرام اور عالمی سائبر سیکورٹی ایجنڈا۔ اسی طرح 2011ء میں افریقہ کے براعظم میں سائبر سیکورٹی کیلئے مکمل فریم تیار کیا گیا جو اس براعظم پر تقریباً 53 ممالک پر نافذ العمل ہے۔ اسی طرح پاکستانی صارفین کیلٸے بھی سائبر سیکورٹی کے اقدامات کیے جائیں تاکہ کسی بھی طرح کا آن لائن ورک صحیح طریقے سے کیا جاٸے۔