یومِ مزدور

image

دی ویووز نیٹ ورک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1886ء کو یکم مئی کے دن امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کیے جانے والے استحصال پر سڑکوں پر نکلے تھے، مگر پولیس نے جلوس پر فائرنگ کرکے سیکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا تھا جبکہ درجنوں کو اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے پر پھانسی دی گئی۔ شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے دنیا کے بیشتر ممالک میں یکم مئی کو محنت کشوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یکم مئی کو ہر سال یہ دن اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں۔ پاکستان میں قومی سطح پر یومِ مزدور منانے کا آغاز 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا۔

 اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینارز، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، مگر بڑی تعداد میں مزدور يكم مئی کو بھی چھٹی منانے کی بجائے کام میں مصروف رہتے ہیں تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔ سورج کی تپتی نظروں سے آنکھیں ملانے والا دیہاڑی دار مزدور اپنے حقوق اور کم اُجرت ملنے پر حکومت کی عدم توجہی پر پریشان دکھائی دیتا ہے تاہم بھوک و افلاس، بے بسی کی زندگی کی گاڑی کو دھکیل رہا ہے تاکہ مہنگائی کے طوفان اور  پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اپنا سفر طے کر سکے۔ مزدوروں کے مسائل سے باخبر حکومت مزدوروں کے حال و حالات کو بدلنے کیلئے  کوئی اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ بس صدرِ مملکت اور وزیراعظم کی جانب سے مزدوروں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

مگر کیا ان تسلی بخش الفاظ سے مزدوروں کی پریشانیوں کا مداوا ہوسکے گا؟ کیا ان کے بچوں کا پیٹ بھر جائے گا؟ ایک طرف اشرافیہ کے بچوں کے چونچلے، ہر روز تقریبات تو دوسری جانب دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ آنے پر غریبوں کی خودکشیاں۔ حکومتیں چائلڈ لیبر پر پابندی عائد کرکے عالمی سطح پر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان بچوں کام نہ کرنے کے عوض نہ تو تعلیم اور نہ ہی کوئی ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے تو ایسے حالات میں مزدوروں کا عالمی دن منانا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ عالمی بینک کی پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 3.5 کی بجائے 1.8 فیصد رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میکرو اکنامک خطرات برقرار ہیں اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے، مالی سال 2022-23ء میں غربت کی شرح میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا، مزید ایک کروڑ افراد کا غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران بے روزگاری کی شرح 8 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے اپنی 2024ء کی پیشن گوئی میں کہا ہے کہ کم بیروزگاری اور روزگار میں مثبت نمو کے باوجود، جی20 ممالک کی اکثریت میں بنیادی اجرتوں میں کمی واقع ہوئی کیونکہ اجرتوں میں اضافہ گذشتہ سال مہنگائی کی رفتار کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ آئی ایل او کا کہنا ہے کہ 2023ء میں انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں عالمی سطح پر 10 لاکھ کا اضافہ ہوا، جو فی کس سوا 2 ڈالر روزانہ سے بھی کم کماتے ہیں۔ نستباً کم غربت میں رہنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں بھی تقریباً 84 لاکھ کا اضافہ ہوا جن کی روزانہ فی کس آمدن 3.65 ڈالر سے کم تھی۔

اب ان تمام تر حالات کو دیکھتے ہوئے صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلنے والا، حکومتی سطح پر کوئی مستقل لائحہ عمل طے کیا جائے، جس میں مزدوروں کی خدمات کا صِلہ ان کی انشورنس سے دیا جائے، ہر تجارتی مرکز پر لازم ہو کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے افراد کی انشورنس کراٸے تاکہ ان کی بیماری، موت یا کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں مزدوروں کو مفت مکان کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات کیلئے بلاسود قرضے ادا کرے۔ اگر واپڈا ملازمین، سرکاری افسروں، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو مفت بجلی سمیت کئی اقسام کی سبسڈی دی جا سکتی ہے تو حکومت غریبوں کی بجلی، پانی اور گیس کو مفت یا کم از کم کیوں نہیں کر سکتی؟ وزیرِ اعظم صاحب وزیروں اور مشیروں کی سینچری اسکور کرنے میں ماہر ہیں تو غریب مزدور کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے کیوں توجہ نہیں دیتے؟ مگر مسئلہ حکومتوں کا نہیں بلکہ عوام کی یکتائی کا ہے، جب تک فرمانِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانند نہیں بن جاتے ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہی کیا جائے گا۔