ماحول دوست زندگی

image

دی ویووز نیٹ ورک: ہمارے اردگرد جو اشیاء موجود ہیں اسے ماحول کہتے ہیں۔ ماحول تمام کیمیائی طبی و حیاتیاتی عوامل کا مجموعہ ہے۔ موجودہ دور میں دیکھیں کہ انسان ماحول کے مسائل میں جکڑا ہوا ہے جس میں زمینی آلودگی، ہوائی آلودگی، اور آبی آلودگی شامل ہیں۔ اس کرۂ ارض پر ماحول جاندار کیلٸے آکسیجن کی مقدار اور درجۂ حرارت انتہائی ضروری ہے مگر آکسیجن کا پورا نہ ہونا اور درجۂ حرارت کا بہت کم یا بہت زیادہ ہو جانا ماحول پر بڑا خطرہ لاحق ہو رہا ہے، ماحولیاتی آلودگی کا اثر ماحولیاتی تبدیلی پر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی سے انسانی جانوں اور دیگر حیاتیاتی نظاموں کیلٸے بڑا خطرہ ہے جس میں ٹرانسپورٹ کی وجہ سے فضاء میں مضر صحت گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے، اس لیے گرین ہاؤس گیسز میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، کاربن آکسائیڈ اور دیگر گیسیں شامل ہیں جو نامیاتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتی ہیں۔

اس وقت بڑے بڑے شہر ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، پشاور اور راولپنڈی شامل ہیں۔ ان کا ایئر کوالٹی انڈیکس 100 کے قریب پہنچ چکا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ، درجۂ حرارت کا بڑھنا، بارشوں کا زیادہ ہونا، سیلاب اور قحط سالی جیسی آفات کا انسانیت کو سامنا ہو رہا ہے۔ ۶202ء کا سال انسانی تاریخ میں پایا جانے والا پانچواں گرم ترین سال ہے۔

اگر ماحولیات کو آج جس مسائل کا سامنا ہو رہا ہے وہ وسائل فطرت کا بے جا اور غیر معتدل استعمال ہے۔ جس میں درختوں اور جنگلات کا کاٹنا، پرندوں اور جانوروں کا بے حد شکار کرنا ہے۔ دوسری جانب روزمرہ کہ استعمال میں ایسی اشیاء ہیں جسے ضرورت کے علاوہ بےفضول خرچ کر رہے ہیں جیسے کہ بجلی کا ضیاع اور نامیاتی ایندھن ہیں۔ ہم نامیاتی ایندھن حد سے زیادہ فضا میں خارج کر رہے ہیں جو کہ ایک گلوبل وارمنگ کا ذریعہ ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کی ایک اور قسم شور کی بھی ہے۔ انسان ایک خاص فریکونسی تک آواز کو سن سکتا ہے۔ سماعت سننے کی فریکونسی 20 ہرٹز سے 2 ہزار ہرٹز تک ہے۔ آج کے دور میں صوتی آلودگی ایک خطرناک مسئلہ بن چکا ہے، جس کے باعث عوام میں کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ سماعت کے مسائل اور ذہنی امراض ہیں۔ دوسری طرف آبی آلودگی انسانوں اور ماحول کیلٸے نقصان دہ ہے کیونکہ ندی، نالوں، دریاؤں، سمندروں اور زیر پانی کے ذخیروں میں خطرناک کیمیکل اور جراثیموں کا شامل ہے۔ زہریلے مادے بغیر صفائی کے دریاؤں اور ندی نالوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

آپ سب کو یہ معلوم ہے کہ انسان اللہ تعالی کا نائب ہے، نائب ہونے کے ناطے انسان کو اس کرۂ ارض کے قدرتی ماحول اور حیاتیاتی نظام کی از حد حفاظت کرنی چاہیے جو انسان کیلٸے ایک طرح سے ثواب دارین کا ذریعہ ہے اور دوسری جانب انسان اپنی صحت اور حفاظت کیلٸے بہترین اہتمام ہے۔ پہلے ادوار میں جو قومیں گزر چکی ہیں ان کی پہچان کا پیمانہ صفائی و پاکیزگی تھا اب جدید دور میں جو قومیں ترقی نہیں کر رہی تو ان کیلٸے مسئلہ صفائی و پاکیزگی کا  ہے۔ لہذٰا آج ہر بنی نو انسان کی ذمہ داری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کیلٸے بڑھ  چڑھ کر اپنی خدمات پیش کریں۔