ڈرائیونگ قوانین کی پاسداری، محفوظ سفر کی ضمانت

image

دی ویووز نیٹ ورک: قانون سازی کسی بھی ملک میں بسنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے مگر قانون پر عملدرآمد شہریوں کی جان و مال کا اصل ضامن ہے۔ تمام شعبۂ زندگی سے متعلق کو قواعد و ضوابط کے تحت ہی سر انجام دینا چاہیے مگر ڈرائیونگ ان سب میں سے اپنی الگ حیثیت رکھتی ہے۔ ڈرائیور نہ صرف اپنی زندگی کا محافظ ہوتا ہے بلکہ کئی دوسری زندگیوں کی حفاظت بھی اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایشیاء میں سب سے زیادہ روڈ حادثات والے ممالک میں پاکستان پہلے جبکہ دنیا بھر میں 48ویں نمبر پر ہے جو لمحہء فکریہ ہے دنیا بھر میں سب سے زیادہ روڈ حادثات رونما ہونے والے شہروں کی فہرست میں کراچی کا چوتھا نمبر ہے جو قابل توجہ اور خطرناک صورتحال ہے۔ دنیا بھر میں اموات کی تیسری بڑی وجہ روڈ حادثات ہیں، ایک سال میں صرف شہر کراچی میں روڈ حادثات کی وجہ سے 47.8 ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف انسانی زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ معیشت بھی کمزور ہو رہی ہے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر 5 منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ملک میں ٹریفک حادثات کے باعث سالانہ 28 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ روڈ سیفٹی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بدترین ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے، نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ٹریفک حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں جس میں ڈرائیورز کی غفلت سب سے نمایاں ہے۔ سب سے زیادہ ٹریفک حادثات خیبر پختونخواہ، اس کے بعد پنجاب، اسلام آباد اور پھر سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں، مگر اندرون سندھ میں حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں کی خستہ حالت ہے۔ ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں 65 فیصد حادثات ہیوی گاڑیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جن کا سب سے زیادہ شکار موٹر سائکل سوار بنتے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق 2022ء میں ٹریفک حادثات میں 781 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 28 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو جاتے ہیں جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر 5 منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020ء میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فی صد تک بڑھے، اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030ء میں 200 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ٹریفک حادثات صرف انسانی جانیں ہی نہیں لیتے بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک حادثات کے بڑھنے کا سبب ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، لاپرواہی اور گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں ہیں، تاہم ڈرائیورز کی لاپرواہی و غفلت گاڑیوں کی تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فیصد حادثات تیز رفتاری جبکہ 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی لاپرواہ ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے بڑے شہروں میں 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین سے آگاہی نہ ہونا ہے۔ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی ڈرائیورز کو ایسی کھلی چھوٹ نہیں دیکھیں گے جیسا کہ وطنِ عزیز میں ہے بلکہ ڈرائیور تو درکنار خود ٹریفک پولیس اہلکاروں و آفیسرز کو بھی ٹریفک قوانین سے آشنائی نہیں، جس کا تجربہ ناچیز نے خود کیا ہے۔ ہر ضلع میں ایک مخصوص کوٹہ سسٹم کے تحت لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے، جس میں ایک حصہ سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران کے سفارشی افراد کیلئے مختص ہے، میرٹ پر انتہائی کم اور باقی "مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے" کے فارمولے پر جاری کئے جاتے ہیں۔

یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب کی موجودہ نگران حکومت نے ڈرائیونگ قوانین پر عملدرآمد اور بالخصوص ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء میں احسن اقدامات کیے ہیں، مگر پھر بھی یہ ناکافی ہیں۔ مرکزی حکومت کو چاہیئے کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں اور وفاق میں ڈرائیونگ اسکول قائم کرے اور لائسنس کے حصول میں نرمی کرے، جو رقم عوام رشوت کے عوض دے رہی ہے اس کا نصف یعنی 10000 روپے فیس مقرر کر کے ایک ماہ کے اندر شہریوں کو لائسنس جاری کرے۔ صرف اشتہارات کے ذریعے آگاہی نہیں دی جاسکتی جب تک کہ عوام باقاعدہ طور پر ڈرائیونگ اسکولوں سے ڈرائیونگ قوانین سے مکمل طور پر آشنا نہ ہو جائیں۔ موجودہ پاکستانی نظام تو ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں، حکومت اس طرح نہ صرف تمام شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتی ہے بلکہ اچھا خاصہ ریونیو اکٹھا کر سکتی ہے۔ ڈرائیونگ اسکولوں کے قیام سے نہ صرف معیاری ڈرائیور سامنے آئیں گے بلکہ اس سے کئی لوگوں کو روزگار فراہم ہوگا۔ حکومت اب خالی دعوؤں سے آگے بڑھے اور عالمی لیول کا نظام متعارف کروائے اور کرپشن کا گلہ گھونٹ کر دنیا بھر میں دوبئی کی طرح اپنے ٹریفک نظام کو جاندار اور محفوظ بنائے۔