اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور ہمارے حکمران

image

دی ویووز نیٹ ورک: جب سے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی کرسی سے ہٹایا گیا اس وقت ایک لفظ جو ہر جگہ پہ بہت زیادہ سنائی دے رہا ہے وہ 'اسٹیبلشمنٹ' ہے۔ یوں تو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو صرف ایک نام جنرل قمر جاوید  اور جنرل عاصم منیر کے ساتھ لگایا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل اسٹرکچر ہے جو اپنے ایک طریقے سے کام کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان شروع ہی میں اسٹیبلشمنٹ کی ہاتھوں چلا گیا جب بانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد گورنر جنرل کی صورت میں سکندر مرزا نے اس ملک کو ہاتھوں میں لیا جن کا بیک گراؤنڈ ہی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تھا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ شروع سے ہی سے کتنی طاقتور ہے اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پہلے 10 سالوں میں آٹھ وزیراعظم تبدیل ہوئے اور پاکستان کے پہلے جنرل الیکشن دو دہائیوں کے بعد ہوئے۔ ان دو دہائیوں میں پاکستان کے اوپر مکمل اور ڈائریکٹ اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول رہا ہے جو بھی وزیراعظم آیا وہ کٹھ پتلی وزیرِ اعظم بن کے آیا۔

دو دہائیوں کے بعد جب الیکشن ہوئے ذوالفقار علی بھٹو ان کے پہلے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بنے اور پھر ان کو وزیراعظم بنایا گیا۔ بھٹو ہی وہ پہلا آدمی تھا جنہوں نے جس نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور سلطنت کو چیلنج کیا اس نے ایک فورس بنائی جس کا نام تھا فیڈرل سیکیورٹی فورس جس کا کام سویلین حکمرانوں کی اور اسلام آباد اباد کی سیکیورٹی جس کے ذمے دی گئی تھی لیکن جب بھٹو کو قصوری کے کیس میں جب پھانسی دی گئی تو تو قتل کا الزام اس فیڈرل سیکیورٹی فورس پر لگایا گیا اور مارشل لا لگنے کے بعد ضیاء الحق نے آتے ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہ یہ تھا کہ اس کو ختم کرو کیونکہ ایف ایس ایف اس کے اس میں شامل ہے۔ حالانکہ ہزاروں لوگ پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں راؤ انوار نے 444 قتل کیے لیکن پولیس کو ختم نہیں کیا گیا۔ ایف ایس ایف کو اس لیے ختم کیا گیا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ایف ایس ایف کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔

اس کے بعد سے لے کر آج تک جو بھی اسٹیبلشمنٹ کیلئے خطرہ بنا تو انہوں نے اسے ہٹا دیا۔ بینظیر خطرہ بنی تو آئی جے آئی بنائی جس کا وزیرِ اعظم نواز شریف کو بنایا گیا۔ نواز شریف کو کٹھپتلی کے طور پر استعمال کیا گیا اور وہ اسی طرح دو مرتبہ استعمال ہوا اور پھر 1999ء میں اسی سے اقتدار لے لیا گیا جس کو لانچ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک مرتبہ پھر مارشل لا لگایا گیا اور پھر 2013ء میں جب جمہوریت کی کچھ ساکھ بحال ہوئی تو میثاقِ جمہوریت ہوا جس میں دونوں پارٹیوں نے یہ عہد کیا کہ اب ہم استعمال نہیں ہوں گے تو پھر یہ ریاست کیلئے مسئلہ بننا شروع ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ایک اور شخصیت کو لانچ کیا گیا جس کا نام عمران خان تھا اور اس کو ہر مسئلے کا حل بنا کر پیش کیا گیا۔ جنرل باجوہ نے خود تسلیم کیا کہ اب ہم نے سیاست چھوڑ دی ہے اس کا مطلب ہے وہ پہلے وہ سیاست کر رہے تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کی صورت میں اسے اقتدار مل لایا گیا اور پھر جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنا شروع کی تو اس سے ایک مرتبہ پھر سائیڈ پر کر دیا گیا اور اب ریاست نے ایک مرتبہ پھر پرانے سکوں کو لانچ کرنا شروع کر دیا ہے جن کو 20 سال پہلے چور ثابت کیا گیا تھا۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ "ریاست کے اندر ایک ریاست" ہے اور یہ اتنی بڑی سلطنت ہے کہ عائشہ صدیقہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ مشرف دور کے اندر یہ امپائر 100 بلین ڈالرز کی تھی اب تک تو اس میں پانچ  چھ گنا اضافہ ہو گیا ہوگا اور یہ اتنی طاقتور ہے کہ کوئی بھی حکمران ان کے کہے سے ایک قدم آگے یا پیچھے نہیں کر سکتا اور ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ ہمارا سٹنگ پرائم منسٹر شہباز شریف بلوچستان میں جا کر یہ کہتا ہے کہ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے حوالے سے میں طاقتور حلقوں سے بات کروں گا۔ اب کوئی بندہ اسے جا کر کہے کہ سر آئین کے حساب سے اپ ہی اس ملک کے سب سے طاقتور انسان ہیں لیکن افسوس ائین ان کیلئے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے سابق وزیراعظم عمران خان جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے بہت زیادہ خلاف ہوئے ہوئے ہیں اور انہوں نے بار بار اپنے بیانات میں یہ کہا ہے کہ میری کالز ریکارڈ ہوتی تھیں میں اپنی مرضی سے بول نہیں سکتا تھا میں خود ایک قیدی تھا جو ہر طرف سے گھرا ہوا تھا تو سوال تو یہ بنتا ہے کہ جب اپ سیاست میں تھے حکومت میں تھے یہ باتیں تب بھی اپ کو پتہ تھی لیکن اپ چونکہ اقتدار میں تھے اس لیے آپ نے کچھ نہیں کیا۔ عمران خان بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ایک شخصیت کے خلاف ہیں اور ایک شخصیت کی مخالفت نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بنا دیا ہے اگر آج بھی پنڈی میں ان کی مرضی کا ایک شخص آ جائے تو وہ پھر ایک پیج پر آ جائیں گے جس طرح جس طرح اپنے دور اقتدار میں وہ سیم پیج کا نعرہ لگاتے ائے ہیں

اب آتے ہیں آخر پہ کہ ہوگا کیا تو ہوگا یہ کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ سٹرکچر ایسے ہی چلتا رہے گا جو بھی آئے گا چاہے ہو وہ عمران خان ہو چاہے وہ نواز شریف ہو چاہے وہ آصف علی زرداری ہو وہ بلی کا بچہ بن کے آئے گا وہ مکمل طور پر پرو اسٹیٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ بن کر آئے گا کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ چلنا ہی ایسے ہے یہ ایک ایسا سٹرکچر ہے کہ اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان کے اگلے وزیراعظم نواز شریف برطانیہ میں بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیا کچھ کہتے رہے ہیں اور ادارے کے خلاف کیا کچھ کہتے رہے ہیں وہ ان کے بیانات سے واضح پتہ چلتا ہے۔ اور آج مسلم لیگ نون کی الیکشن کمپین سے مسلم لیگ نون کی حکمت عملی کو واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس وقت ان کا کیا بیانیہ ہے تو اس کے بعد بھی جو بھی آئے گا وہ ایسے ہی اچھا بچہ بن کے آئے گا۔ سب نے مل کر باجوہ کو ایکسٹینشن دی ایک ہی دن میں بل پاس ہوا اسی دن ان کو ایکسٹینشن مل گئی اب انہی تینوں میں سے کچھ ان کے ساتھ ہیں کچھ ان کو گالیاں دے رہے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے حکمران ہمارے غم خوار نہیں ہیں کوئی بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے یہ سارے پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں یہ سارے اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کرتے ہیں لہٰذا اپ سے یہی درخواست ہے بلکہ اپنی دوستیاں اپنی یاریاں اپنے رشتہ داریاں ان لوگوں کیلئے خراب نہ کریں۔ ہمارے سیاسی اس سسٹم کے بینیفیشری ہیں یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا۔