غزہ پٹی لہولہان

image

دی ویووز نیٹ ورک: غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ جارحیت اور بمباری کی وجہ سے بےشمار معصوم بچوں، مرد و خواتین سمیت بسنے والے حیوانات و نباتات پر ڈھائے گئے مظالم کو دیکھنے پر دل خون کے انسو رو رہا ہے۔ غزہ ایک تنگ سی پٹی ہے جس کو اسرائیل مظالم نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے اس وقت کھلی جیل کا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے، جس میں ہر طرف سے انسانی جانوں کا خون سرعام بہہ رہا ہے۔ غزہ کی جیوگرافک لوکیشن کو دیکھا جائے تو اس تنگ سی پٹی میں تقریباً 2.3 ملین لوگ بس رہے ہیں اور تقریباً 365 مربع کلومیٹر کی پٹی ہے۔ 

اس تنگ سی پٹی میں سکولوں، کالجوں، مسجدوں اور رہنے کیلٸے جگہوں پر بھی شدید بمباری کی گئی ہے جو عالمی دنیا کے منہ پر تمانچہ ہے۔ اگر 8 اکتوبر سے 10 جنوری 2024ء تک اسرائيلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے غزہ کی پٹی کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور وسیع نقصان پہنچایا ہے اس وقت تقریباً 23000 کے قریب اموات ہو چکی ہیں، جس میں 9 ہزار کے قریب معصوم بچے ہیں، بمباری کے نتیجے میں غزہ میں رہائشی گھر تباہ ہوئے اور بے شمار افراد لاپتا ہے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف اگر تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو تقریباً 75 سکول مکمل بند جبکہ 300 کے قریب نقصان پہنچا ہے۔۔ اسرائیلیوں نے فضائی کاروائی سے بھی کافی نقصان پہنچایا ہے جس میں تقریباً 130 سرکاری عمارتوں کا شدید نقصان پہنچا ہے، اس کے علاؤہ 100 کے قریب مساجد تباہ اور 3 گرجا گھروں کو نقصان پہنچا۔ وہ عالمی دنیا جو یوکرین میں ہونے والی جنگ پر بات کرتے تھے اب وہی غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یوکرین کے مقابلے میں فلسطین کے 2 گنا سے زائد بچے اور خواتین شہید ہو چکے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلٸے امریکہ سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک اپنے مفاد کی خاطر چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اب عوام کو اتنا شعور ہے کہ ظالم اور مظلوم کا فرق جانتی ہے۔ آج دنیا میں اصول، قوانین اور قوائد و ضوابط کو نفاذ کرنے میں خود ہی ناکام ہو رہے ہیں۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت اقوام متحدہ کے طاقتور ادارے سلامتی کونسل میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک بھی قرارداد منظور نہ ہو سکی۔ اگر اقوامِ متحدہ فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوئی ہے تو دوبارہ حالات شدت اختیار کر سکتے ہیں۔

اس وقت اقوامِ متحدہ بشمول تمام ممالک کو چاہیے کہ ایسی پالیسی بنائی جائے جس میں اسرائیلی جارحیت پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ انہیں احساس ہو کہ فلسطین میں بسنے والے لوگ اتنے ہی اہم ہیں جتنے باقی دنیا کے انسان ہیں۔ امت مسلمہ کو لازم ہے کہ القدس شریف کیلئے ڈٹ کر کھڑے رہیں اور ساتھ ہی ساتھ نئی جنریشن کو آگاہ کرتے رہیں تاکہ کسی بھی میڈیا وار یا ڈِس انفارمیشن کے جال میں پھنس کر اپنے حق کے متعلق غیر یقینی کا شکار نہ ہو سکیں۔ اگر قبلہ اول ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو شاید ان کا اگلا ٹارگٹ مسجد حرام یا مسجد نبوی پر ہو سکتا ہے۔ خدارا جہاں جہاں مسلم آباد ہیں اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ روحانیت سے بھی فلسطین کاساتھ دیں تاکہ فلسطین میں رہنے والے باسی اپنی سلطنت پر ازادی سے رہ سکیں۔