سیاسی پھلجھڑیاں

image

دی ویووز نیٹ ورک: بچپن میں شبِ برات کے موقع پر ہم نے بہت پھلجھڑیاں چلائی ہیں، پھلجھڑی جیسے جیسے جلتی ہے نئے سے نیا رنگ دکھاتی ہے۔ دورِ حاضر میں جہاں ہر میدان میں ترقی ہوئی ہے وہیں پھلجھڑی نے بھی اچھی خاصی ترقی کی ہے، آتشیں پھلجھڑی سے اب سیاسی پھلجھڑیاں بھی مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں۔ 8 فروری سے لیکر اب تک یہ پھلجھڑیاں اب اپنا رنگ دکھاتی تھک ہی نہیں رہیں، 8 فروری کی شام کو جیتے، 9 نو فروری کو ان کی شکست کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ کچھ علاقوں میں تو چار دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی خبر نہیں کہ کون جیتا کون ہارا۔ ووٹرز ہیں کہ مٹھائیاں لئے دربدر خوار ہو رہے ہیں، امیدوار حسبِ معمول الیکشن کمیشن اور عدالتوں تک جا پہنچے ہیں مگر آر اوز خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ چوتھے نمبر پر براجمان امیدوار جیت گیا اور بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے کو ہرا دیا گیا، عجیب سی بندر بانٹ ہوئی ہے۔ 

میرا تعلق جس حلقے سے ہے، وہاں سے بہت سے امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، مگر نمایاں ووٹ حاصل کرنے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار چوہدری محمد الیاس، نون لیگ کے چوہدری عابد رضا کوٹلہ اور ق لیگ کے چوہدری موسٰی الٰہی تھے، سب سے پہلے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کے حامیوں نے جشن منایا، 9 فروری کی صبح سے رات گئے تک نون لیگ کے امیدوار چوہدری عابد رضا کو جیتنے کی بشارت دی گئی، ان کے اسپورٹرز نے دن بھر حتیٰ کہ رات کو بھی ہوائی فائرنگ کو ثواب کا کام جانتے ہوئے سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا، اگلی صبح جب اٹھے تو ق لیگ کے چوہدری موسٰی الٰہی کے جیتنے کی خبر وائرل ہوگئی۔ خدا خدا کرکے 11 فروری کو دوبارہ چوہدری الیاس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو قلب و جاں نے سکون پایا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کی تعداد تین جگہوں پر نہ صرف یکساں تھی بلکہ تینوں امیدواروں کے ڈیروں پر تقریباً وہی لوگ نظر آتے رہے۔

اب ذرا آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب خبر ہے کہ صرف سندھ ہائیکورٹ نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی  کے 40 حلقوں کے انتخابی نتائج کیخلاف درخواستوں پر تمام درخواستوں پر الیکشن کمیشن اور وفاق کو 13 فروری کیلئے نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ پنجاب سمیت باقی صوبوں کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ کیا پاکستان کی عدالتوں کے پاس پہلے زیرِ سماعت مقدمات کم ہیں، جو ان پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی فہرست انتخابی عمل سے قبل ہی جاری کردی جاتی اور ساتھ ہی وارننگ جاری کردی جاتی کہ اس پر اعتراض کرنے والے کو حسبِ معمول 9 مئی کا ماسٹر مائنڈ ثابت کرکے پابندِ سلاسل کیا جائے گا۔ اس طرح قوم کا وقت اور پیسہ بھی بچ جاتا اور اسٹیبلشمنٹ کے من پسند نتائج بھی آ جاتے۔ کیا واقعی ہم اخلاقی اور ذہنی طور پر پسماندہ ہیں کہ بچوں کی طرح اوچھے ہتھکنڈوں سے خود کو طاقتور اور ڈیڑھ سیانا (ضرورت سے زیادہ عقلمند) کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اگر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسا گھسا پٹا نظام مرتب کیا جا رہا ہے تو ماضی میں کیا کیا ہوتا رہا ہوگا؟ دنیا آج مصنوعی ذہانت سے انسانی زندگی کو سہل بنا رہی ہے، چاند اور مریخ پر رہائش پذیر کے اقدامات کر رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک سیاسی عمل کو شفاف نہیں بنا سکے۔ ہر روز نئے سے نیا کٹا (مسئلہ) کھل جاتا ہے۔ کبھی جو سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے گیت گاتے تھے آج وہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں، ن لیگ کے ارکان جاوید لطیف سمیت دیگر کئی خود بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ عوامی مینڈیٹ کو چوری کرکے مسلم لیگ ن، پی پی پی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر پارٹیوں کو نوازا گیا ہے، ان کے بقول عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا ہے ان کو ہی حکومت ملنی چاہئے مگر بقول شاعر کہ "کون سنے میرا دردِ دل" کی سی کیفیت ہے۔ ندیم افضل چن کو ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ "میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ گیا اور کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں سیاست چھوڑ دیتا ہوں، جنرل باجوہ نے وجہ دریافت کی تو میں بتایا کہ آپ کے لوگ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں میری جیت کو شکست میں بدل دیا جاتا ہے جس پر جنرل باجوہ نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بلایا اور حکم دیا آئندہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔" 

قارئین کرام! جس ملک میں اتنی اندھیر نگری ہو کہ کھلم کھلا ادارے عوامی حقِ رائے دہی کا خون مار رہے ہوں اور سیاستدانوں کی اکثریت اس پر آواز اٹھانے کے بجائے ان سے آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی ساری زندگی صرف کر دیں تو وہاں پر کیسے تبدیلی کا سوچ سکتے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا جس کی تصدیق ایک بیوروکریٹ، کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کی ہے کہ ہم نے راولپنڈی ڈویژن میں 50، 50 ہزار کی لیڈ سے جیتنے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ریورس گیئر لگا کر ہرایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری صاحب یا دیگر سیاسی شخصیات ان چوری شدہ سیٹوں پر حکومت کرتے ہوئے اپنے ضمیر کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟ کیسے وہ عوام کے درمیان خود کو معتبر ثابت کریں گے؟ کیا اس ملک پر صرف اقتدار ہی سب کچھ ہے یا اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی موجود ہے؟ مگر ان سب سوالوں کا جواب صرف پاکستان کی عوام کے پاس ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کے پیچھے لگ کر تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے ان کو اپنے بچوں کے مستقبل سے زیادہ ان لوگوں کے مستقبل اور حال کی فکر ہے۔ ایسی قوم معجزات کا انتظار کر رہی جو اپنے آپ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر جشن مناتی ہے۔