پتنگ بازی ایک خونی کھیل

image

دی ویویوز نیٹ ورک: صحت مند جسم کیلئے مختلف کھیل اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ کھیل جسم و دماغ کی ورزش کے ساتھ ساتھ خوشی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں لیکن چند کھیل اس قدر خطرناک ہیں کہ وہ انسانی جان کیلئے موت کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کھیلوں میں پتنگ بازی جیسا خونی کھیل بھی شامل ہے۔ اس کھیل کو ہر آنکھ نے اپنے نظریے سے پرکھا، کسی نے اس کھیل کی شان لکھی تو کسی نے اسے ہندوؤں کی مذہبی روایات لکھا،  کسی نے اسے شریعت کے منافی لکھا  تو کسی نے 200 سال قبل مسیح جنگ کے دوران ایک مخصوص فاصلے کو ماپنے کی ابتداء لکھی۔ مذکورہ عرصہ کے دوران ہر انداز سے اس کھیل کو پیش کیا جاتا رہا لیکن اس کھیل کی منحوسیت کیلئے یہی کافی ہے کہ یہ انسانی جان اس پراسرار انداز میں لیتا ہے کہ مرنے والے کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ کس طرف سے موت اڑتی ہوئی اسے ساتھ لے جاتی ہے۔ 

گزشتہ دنوں ایسی ناگہانی اموات کے کئی دلخراش واقعات نے روح کو چھلنی کیا لیکن افطار سے قبل گھر  سے ایک نوجوان کی موت پر انتہائی افسوس ہوا، جو روڈ پر اپنی دھن میں موٹر سائیکل چلارہا تھا کہ اچانک ڈور گلے پر پھرنے سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ ایسی کئی اموات نے ہنستے مسکراتے گھروں کو اجاڑ دیا، اس سے دو دن بعد یہ خبر بھی پھیل گئی کہ اس بچے کی ماں شدید صدمے کو برداشت نہ کر سکی اور وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ بےشک موت کا وقت مقرر ہے جس کے سامنے ہم سب بےبس ہیں لیکن احتیاط کس پر لازم ہے؟ اگر پتنگ بازی نہ کی جائے تو بدہضمی ہو جاتی ہے یا خدانخواستہ موت آسکتی ہے؟

اب میڈیا کی طرف آئیں تو وہ اس پر لکھنے کیلئے پتنگ بازی کی تاریخ اور چائنا سے لے کر باقی ممالک کی تقاریب کو  اپنا موضوع گفتگو بنا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں یہ تحاریر دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ ڈور کیسے بنائی جاتی ہے، کونسی ڈور زیادہ طاقتور ہے اور آج پاکستان میں پتنگ کی صنعت کس سطح پر کھڑی ہے۔ یقین مانیے کہ ایک عجیب تذبذب کا شکار ہے زندگی۔ دوسری طرف آئیں تو قانون نے اپنی مداری چلا رکھی ہے۔ یہ گاڑیاں نکلیں، وہ بندے پکڑے گئے، میڈیا پر رپورٹس چل گئیں، تھانیدار کی ملزم کے ساتھ ویڈیو اور تصاویر، کچھ پتنگ اور ڈور جلا دی گئی۔۔۔ پھر؟ پھر کیا ملزم کو چھڑوانے کیلئے یہ ایم پی اے کا فون وہ ایم این کی گیدڑ بھبکی اور بچوں کو موت کی نیند سلانے والے دوسرے ہی دن اپنے گھر آرام فرما رہے ہوتے ہیں۔ فلم یہاں ختم بھی نہیں ہوتی اب قبضے میں لی گئی ڈور اور پتنگ کانسٹیبل سے لے کر ایس ایچ او تک اپنے عزیز و اقارب کو بطور تحفہ دے رہے ہیں یا پھر کسی اور پر سستے داموں بیچ کر اپنی جیب گرم کرلیتے ہیں۔

اس ضمن میں عمومی طور پر صرف قانون کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ ان بے چاروں پر اس کے علاؤہ بھی بہت ذمہ داریاں ہیں تو پتنگ بازی کی روک تھام کیلئے والدین کو کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اور سب سے اہم بات کہ اگر یہ قانون بنایا جایا کہ جس تھانے کی حدود میں پتنگ بازی کو فروغ مل رہا ہو یا اس جگہ پتنگ بازی سے معصوم جان جائے تو اس حدود میں تعینات تھانیدار، ڈی پی او، ڈی سی او اور اے ڈی سی کے خلاف کارروائی کرکے مقدمہ درج کیا جائے۔ پھر دیکھیں نتائج اچھے آتے ہیں یا نہیں؟