احساس کیا ہے؟

image

یہ انمول خزانوں میں سے ایک انتہائی اہم خزانہ ہے۔ آج اگر دُنیا کا نظام چل رہا ہے تو وہ صرف احساس کرنے کی وجہ سے چل رہا ہے۔ ہر دور میں دنیا کا حال کتنا اچھا اور کتنا بُرا تھا یا ہے، یہ سب انسان بہتر طور پر جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون اچھا کام کر رہا ہے اور کون بُرا۔ بندوں کے درمیان موجود تعلقات کتنے اچھے اور کتنے بُرے ہیں، ہر بندہ ہی اپنے اچھے بُرے تعلقات کے پیچھے چُھپی تمام وجوہات سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔

آج جس موضوع کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانے کی جسارت کر رہا ہُوں وہ ہے "احساس کی کمی کی وجہ سے بگڑتا ہُوا معاشرہ اور اُس کے نقصانات"، کہ جو نہ صرف ہمارے بلکہ تمام معاشروں کا انتہائی بنیادی مسئلہ بن چُکا ہے۔ آئے روز ہم اخبارات میں گھریلو مسائل کی ایک لمبی فہرست جس میں ہم مختلف تنازعات کے بے شمار حالات و واقعات پڑھتے چلے آ رہے ہیں اور بعض لوگ تو ایسے واقعات ایک دوسرے کو بہت مزے لے لے کر سُناتے ہیں. بگڑتے ہوئے معاشرے کی بنیادی وجہ کیا ہے اور ہمارے رویے ایک دوسرے کے ساتھ بہتر کیوں نہیں ہوتے؟

اِس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے دو اور بڑی اہم وجوہات یہ ہیں کہ ایک دوسرے پہ توقع رکھنا یا انحصار کرنا اور ایک دوسرے کی بہتری کیلئے احساس بھرے اقدامات نہ اُٹھانا۔ دراصل یہ وہ دو عنصر ہیں کہ جس کے بعد سارے مسئلے جنم لینا شروع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہن کو اپنے بھائی سے یہ توقع تھی کہ ہر لحاظ سے وہ اُس کا سب سے ذیادہ خیال رکھے گا اور دوسروں سے زیادہ ترجیح دے گا، بیوی کو اپنے شوہر سے یہ توقع تھی کہ اُس کا شوہر ہر معاملے میں اُس کا خیال رکھے گا اور ہر ایک سے بڑھ کر اُس کو ترجیح دے گا، ماں کو بیٹے سے یہ توقع تھی کہ اُس کا بیٹا اپنی ماں کا ہر کہا مانے گا کبھی بھی کوئی بات نہیں ٹالے گا اور ہر بات کو سب سے بڑھ کر ترجیح دے گا. اِس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

جب انسان ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کر لیتا ہے اور نتائج و مشاہدات اگر اُس کے برعکس رونما ہو جاتے ہیں تو توقع رکھنے والا بندہ فوراً ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے آپس کے تعلقات خراب کر بیٹھتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہن بھائی، میاں بیوی اور دوست اور کئی قیمتی رشتوں میں بے جا پھوٹ پڑ جاتی ہے۔

ایسے رویوں کا حل کیا ہے؟

جب معاملات کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ توقعات رکھنے یا انحصار کرنے کے بعد اگلے بندے کا احساس نہ کِیا جائے تو کوئی بھی تعلقات مثبت انداز میں پروان نہیں چڑھتے۔ اگر بہن کو بھائی کی محنت اور خلوص کا احساس ہو جائے تو وہ کبھی بھی اپنے بھائی سے اِس وجہ سے ناراض نہیں ہو گی کہ اُس کے بھائی نے اُس کا خیال دوسروں سے زیادہ کیوں نہیں رکھا، بلکہ اِس کے برعکس وہ احساس کا جذبہ بیدار رکھتے ہوئے اپنے بھائی پہ اعتبار اور اعتماد کو قائم رکھے گی، دُعائیں دے گی اور اپنے بھائی کی ہمیشہ خیرخواہ رہے گی، کیونکہ اُسے یہ اندازہ ہو گا کہ بھائی کسی حکمت کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔

اپنی بہن کا یہ عمل دیکھ کر بھائی کے دِل میں بھی احساس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی بہن کا خیال مزید بہتر طریقے سے رکھنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اِس طرح بہن بھائی کا رشتہ کبھی بھی نفرتوں کی نظر نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ محبت کے رشتے میں قائم رہتا اور پروان چڑھتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی اور ماں بیٹا / بیٹی ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے قربانی کے جذبے سے سرشار، اعتماد اور اعتبار کی فضاء کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی بھی آپس میں ناچاکی پیدا نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں شکایت آپس کے تعلقات کو مزید خراب کر دیتی ہے جبکہ درگزر کرنے سے تعلقات مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔ یہ مذکورہ پہلو احساس کا ایک پہلو ہے۔

احساس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آدمی میں نیکی کرنے کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہُوا ہو، مثلاً کسی کو دُکھ پہنچانے سے ڈرتا ہو، کسی کو درد کی کیفیت میں ڈالنے سے گھبراتا ہو، کسی کو بھی نہ رُلاتا ہو، دوسروں کے درد کی دوا بن جاتا ہو، کسی کی مسکراہٹ بن جاتا ہو، کسی کے غم کا علاج بن جاتا ہو، مشکل میں پھنسے انسان کی مدد کے لئے سب سے پہلے آتا ہو، کسی کی بھوک مٹانے کے لئے اپنا کھانا بھی ترک کرتا ہو، کسی کی خوشی کے لئے اپنی خوشی بھی قربان کرتا ہو، کسی کو پرایا نہ سمجھتا ہو، مخلوقِ خدا کا درد رکھتا ہو، سچ کو فروغ دیتا ہو، جھوٹ کو مٹا دیتا ہو، دوسروں کے لئے آسانیاں بانٹتا ہو، امانت میں خیانت نہ کرتا ہو، معاشرے کو بہتر معاشرہ بنانے کے لئے دن رات محنت کرتا ہو، حق کا پیغام پھیلاتا ہو، رب کے دئیے ہوئے پر شکر کرتا ہو، رب کے کم دئیے پر کبھی شکایت نہ کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔

کسی بھی معاشرے کی اِکائی فرد ہوتی ہے، فرد کی جمع افراد ہے اور افراد سے گھر بنتا ہے، اور گھروں سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جب تک ہر فرد اپنے اندر احساس جیسی دولت کا جذبہ پیدا نہیں کرے گا تو گھر ہو یا محلہ، شہر ہو یا گاؤں، حتیٰ کہ کوئی بھی معاشرہ ہو، وہ معاشرہ صحیح سِمت پہ گامزن کامیاب معاشرہ کبھی بھی نہیں کہلا سکتا۔ لہٰذا ہر فرد کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اندر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے والا احساس پیدا کرے، قربانی سے سرشار جذبہ پیدا کرے، ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دے۔ ان جیسے تمام خصائل کا مالک انسان ہی وہ انسان ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں انسان کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔

 کسی نے کیا خوب کہا کہ "جو اپنا خیال رکھے وہ جانور ہوتا ہے اور جو دوسروں کا خیال رکھے وہ انسان ہوتا ہے"۔ کیونکہ درخت کبھی خود کو سایہ نہیں دیتا، نہ ہی پھل خود کھاتا ہے۔ اسی طرح پانی کبھی اپنی پیاس نہیں بُجھاتا۔ قدرت نے جو بھی چیز بنائی ہے وہ دوسروں کو نفع دینے کے لئے بنائی ہے۔ آدمی بھی تب انسان کہلاتا ہے جب وہ جملہ طور پر دوسروں کو نفع پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

آج ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان صفت لوگ کم اور درندہ صفت لوگوں کی تعداد بے حساب ہے۔ اِس کا ذمہ دار اگر ہم کسی کو ٹھہرائیں تو سب سے پہلے ہم اپنے آپ سے یہ سوال پُوچھیں گے کہ کیا اِس بگاڑ کی وجہ میں تو نہیں، اگر نہیں تو خود سے یہ پُوچھیں کہ اپنے گھر، محلے، مُلک اور انسانیت کی فلاح کے لئے آپ نے اپنے کردار کو سچ کے پانی سے کتنی بار نہلایا؟ جو بندہ اپنے آپ کا بھی احساس نہ کرتا ہو تو وہ دوسروں کا کیا خیال رکھ سکتا ہو گا۔

ایسا بندہ معاشرے میں بھلائی کے فروغ کا باعث بننے کی بجائے بُرائی کے فروغ کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ٹھہرا ہُوا پانی اپنے اندر بدبُو پیدا کر دیتا ہے جبکہ چلتا پانی کبھی بھی بدبودار نہیں ہوتا۔ لہٰذا اچھائی کے فروغ کیلئے چاہے آہستہ ہی صحیح لیکن مثبت انداز میں ضرور چلتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ "بُرائی بُرے لوگوں کی وجہ سے نہیں، اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے پھیلتی ہے"۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "اگر کسی شخص کی قیمت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ دیکھو کہ وہ کتنا ذمہ دار ہے"۔ ذمہ داری کو بخوبی نبھانے والے لوگ ہی دراصل معاشرے کی بہتری کا باعث بنتے ہیں اور اُنہیں کے کردار کے باعث قوموں کی تعمیر و ترقی اور بقاء ممکن ہوتی ہے۔

آپ کے ارد گرد اگر کوئی بندہ بگاڑ کا باعث بن رہا ہے تو اُس سے دُوری اختیار کرنے کی بجائے اُس کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ وہ بندہ اپنے اندر احساسِ کمتری کو ختم کر سکے اور احساسِ ذمہ داری کو سمجھ سکے۔

یاد رکھیں انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ انسانیت کا درجہ تمام تفریقوں سے پاک ہوتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے کہ اگر کسی کے اندر انسانیت کا درد پیدا ہو جائے اور انسانیت کی فکر کی شمع روشن ہوجائے تو وہ کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھتا بلکہ ہمیشہ مثبت انداز میں حرکت کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو بُرا نہیں سمجھتا اور جس میں بُرائی دیکھتا ہے اُس سے دُور ہونے کی بجائے اُسے اپنے مزید قریب کر کے اچھی صحبت اختیار کروانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہی اسلام کی تعلیمات بھی ہیں کہ "جو تم سے دُور ہو جائے اُس سے نزدیک ہو جاؤ، اور جو تم سے کٹ جائے اُس سے جُڑ جاؤ"۔