ہر فرد

image

 بحیثیت ایک مسلم قوم ہم پاکستانیوں سمیت پوری امتِ مسلمہ کو ہر شعبہ ہائے زندگی کے اندر تعمیری سوچ اور ہنرمندی میں سب سے آگے ہونا چاہیئے تھا کہ جیسے ہمارے مسلم اسلاف نے محنت و مقام حاصل کرکے دنیائے عالم پر اسلامی تعلیمات کے تحت فلاح و بھلائی اور ہنرمندی میں اسلام کا لوہا منوایا اور اسلام کی دھاک بٹھائی جبکہ اِس کے برعکس حالاتِ حاضرہ میں مسلم حکمرانوں کی عدم توجہ اور سست روی والی پالیسیاں ہر مسلم قوم کو ناکارہ بنانے کے درپے ہیں. کیوں؟

آئیے جانتے ہیں اِس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

کسی بھی معاشرے کی اکائی فرد ہے، اور ہر فرد معاشرے کا اہم جزو ہے. معاشرے کی بگاڑ کا باعث بننے یا معاشرے کی بہتری کا باعث بننے کے لئے ہر فرد کو مل کر ہر میدانِ عمل میں تعمیراتی کام کو مکمل کرنے اور اُس میں استحکام و استقامت لانے کے لئے مل کر ایک سوچ، پیار، محبت، بھائی چارے اور عزت و احترام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اِس وقت بحیثیت کسی بھی مسلم معاشرے میں اگر نظر دوڑائی جائے تو نفسا نفسی کا عالم ہے. وہ فرد جسے اپنی قوم اور معاشرے کی بہتری کی اکائی بننا تھا اُس کی توجہ و دلچسپی کو حکمرانوں کی عدم توجہی اور غیر منصفانہ و غیر منظم پالیسیوں کی وجہ سے تعمیری سوچ میں بدلنے اور ڈھالنے کی بجائے اُس ہی فردِ واحد کی توجہ و دلچسپی کو غیر اخلاقی روایات اور غیر منصفانہ رویوں میں تبدیل کرنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اکثریت مسلم حکمران بحیثیت آلہء کار دشمنانِ اسلام کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے.

ایسے میں فرد واحد کی اپنی کیا ذمہ داری ہونی چاہیے؟

ہر فرد اپنے طور پر اپنی محنت و مشقت کو صرف اپنے لئے جاری رکھنے کی بجائے اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار و روایات کے فروغ کو سامنے رکھ کر عوام الناس کی بھلائی کے لئے بھی سرگرم عمل رہنے کی اشد ضرورت ہے. بجائے اس کے کہ ہر فرد ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے (جس کا نتیجہ بالآخر تباہی ہے) بہتر ہو گا کہ ہر فرد اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کامیاب بنانے کے لئے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبت و بھائی چارے کو فروغ دے اور جہاں کہیں کوئی بدمزگی و بدعملی و بدعنوانی وغیرہ کو ہوتے ہوئے دیکھے تو اُس کی روک تھام کے لئے قانونی راستے کو اپنا کر برائی کی روک تھام میں بھی اپنا کردار ادا کرے.

اس کے فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟

جیسے کہ ایک مسلم معاشرے کی اصلاح و خیر کے فروغ کے لئے اسلام ایک ضابطہ حیات کے طور پر ہماری رہنمائی کے لئے اللہُ پاک نے ہم سب کو بہتر زندگی گزارنے کی ترکیب و ترتیب سے روشناس فرما دیا ہے، اگر ہر فرد اپنے آنے والے کل کو بہتر دیکھنا چاہتا ہے تو اپنے آج کو بہتر بنانے کی تگ و دو کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنے اسلاف و قومی مسلم ہیروز کو اپنا رول ماڈل بنا کر اسلامی تعلیمات میں ایمانداری کے فروغ کیلئے محنت و مشقت شروع کر کے اُسے جاری رکھنے کی حکمتِ عملی پر کاربند ہو جائے، تب ایک مسلم معاشرے کا مستقبل روشن اور خوشحال ہو سکتا ہے.

کون سی قوم دنیائے عالم کی فلاح و بہتری کے لئے مشعلِ راہ کے طور پر ایک نمونہ عمل پیش کر سکتی ہے؟

وہ قوم جو اپنے آج کے اندر غور و خوض کرتی ہے اور اپنے آج کے اندر مِلے ہوئے اپنے گزرے کل کے اسلاف کی روایات اور ثقافت کو یاد رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر من و ان عمل پیرا رہتی ہے وہ کبھی کسی قوم سے پیچھے نہیں رہتی بلکہ اُس قوم کا ہر فرد ہی ہیرو ہوتا ہے اور وہ فرد کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا، نہ ہی کسی پریشانی و مصیبت کو خاطر میں لاتا ہے. ایسے لوگ رہتی دنیا تک دوسری قوموں پر اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپناتے ہوئے منصف مزاج معاشرے کی اکائی کے طور پر اپنے دین و مذہب کا پرچم سربلند کیے رکھتے ہیں اور اپنی ایسی دھاک بٹھا دیتے ہیں کہ کسی کی آنکھ ملانے کی بھی جرآت تک نہیں ہوتی. ایسے میں دنیا بھر کے اندر خوشحالی لائی جا سکتی ہے، جس کا واحد طریقہ اسلام کا عروج ہے، وگرنہ دنیائے عالم کا کوئی خطہ ایسا نہ رہے گا جہاں کی اقدار و اساس کی دھجیاں اڑائی جانے سے بچ سکے جس سے فطرت کے خلاف فورس (طاقت) بننے کے مواقع بڑھ سکتے ہیں جوکہ دنیا کے ماحول میں بے حد تباہی لانے کا باعث بن سکتا ہے اور وہ ماحول کسی بھی لحاظ سے عرضی حیاتیات کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے.

ہماری بحیثیت ایک ذمہ دار فرد کے اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کے ہر کونے میں ہر جگہ کائنات کی فطرت کے قانونی تقاضے پورے ہونے میں اُسے روکنے والی (فورس) طاقت کا حصہ بننے کی بجائے اُسے مکمل ہونے بلکہ اُس کے فروغ کا باعث بننے والوں کا حصہ بننے میں اپنا کردار ادا کر سکیں جس کا حاصل وصول بالآخر بہترین نتائج کی صورت میں بھلائیوں بھرا ہوگا جوکہ کسی بھی لحاظ سے کسی کے لئے نقصان کا باعث نہیں ہو گا اور ہر فرد خوشحال طریقے سے اپنی زندگی گزار سکے گا.

علامہ اقبالؒ اس حوالے سے کیا فرما کر گئے ہیں؟

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ