ملکی تاریخ میں سیاست و ریاست اک اہم موڑ پر

image

دی ویووز نیٹ ورک: موجودہ سیاسی منظر نامہ تاریخ کے اک سیاہ باب میں درج ہونے جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ سوموار یعنی آج 15 مئی کو حکومتی اتحاد سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرے گا۔ بنیادی طور پر یہ مظاہرہ یا دھرنا سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو نیب کیسز سے ریلیف دینے اور ان کی نیب کی جانب سے گرفتاری کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی عمران خان کو معلوم اور نامعلوم مقدمات میں ضمانت دے دی اور کہا کہ ان کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ اب پی ڈی ایم کی قیادت کے مطابق عدلیہ کا یہ اقدام انصاف کے خلاف ہے۔ عمران خان پر اس وقت تک مختلف نوعیت کے تقریباً 145 مقدمات ہیں۔ جن میں دہشت گردی، غداری اور کرپشن کے مقدمات شامل ہیں۔ سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کے علاوہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت بھی اس وقت پابند سلاسل ہے اور تقریباً سب پر مختلف قسم کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

یہ چوہا بلی والا کھیل کوئی نئی بات نہیں، پاکستان میں مقدمات قائم کرنا چٹکی بجانے سے زیادہ آسان ہے۔ سیاسی حریف پر مقدمہ بنا کر اسے قید کرنا اور پھر عدالتوں کے چکر لگوانا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان کی اکثریت اس بات کو اب جان چکی ہے کہ ان مقدمات کی کوئی حقیقی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس سے قبل گرفتار ہونے والے پی ٹی آئی کے قائدین اور ورکرز پر بھی ایسے ہی کئی مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ایک مقدمے سے ضمانت ملتی تھی تو اگلے صوبے کی پولیس گرفتار کرنے کے لئے عدالت کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں سینیٹر اعظم سواتی، شہباز گل، فواد چوہدری اور عمران خان کے بھانجے احسان نیازی کو بھی پورے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں سیر کروائی گئی۔ عمران خان کی تمام مقدمات میں ضمانت سے قبل یہ سب مقدمات موجود تھے، اور عدلیہ جانتی ہے کہ ان مقدمات کی کوئی حیثیت یا حقیقت نہیں بلکہ یہ مقدمات فقط سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، اس کے باوجود یہ مقدمے خارج نہ کیے گئے۔ پیشیاں ہوتی رہیں اور وکلاء دلائل دیتے رہے، نہ اِدھر سے کوئی حل نظر آتا، نہ اُدھر سے۔

اب جبکہ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر آئینی قرار دیا ہے، جس سپریم کورٹ نے رات بارہ بجے عمران حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے عدالت لگائی تھی تو پی ڈی ایم خاموش تماشائی تھی۔ پی ڈی ایم کے مطابق عمران خان کی حکومت کے خلاف فیصلہ دینے والی رات یہی عدلیہ آئین کی محافظ تھی اور جب اس عدلیہ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کو بڑھانے کے اقدام کے خلاف فیصلہ دیا تو یہی عدلیہ ناقابل قبول ہوگئی۔ اس کے خلاف پارلیمان میں قراردادیں اور بل پیش ہوئے۔ بیچارے سرکاری ملازمین اور اُن کی فیملیز کو مختلف قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سارا کھیل تماشہ اکثر پاکستانیوں کو عجیب لگتا ہو گا، بالکل بھی سمجھ نہیں آتا ہو گا کہ کون ٹھیک کر رہا ہے، کون غلط اور یہ سارا کھیل کس کے کہنے پر چل رہا ہے۔

اصل قصہ یہ ہے کہ ریاست انتہائی مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت یہ فیصلہ دے تو عدالت وہی فیصلہ سناتی ہے، جب وہ عدالت کو آزاد چھوڑتے ہیں تو وہ اپنی مرضی کا فیصلہ دیتی ہے۔ جب وہ چاہتے ہیں کہ سیاستدان یہ بات کریں تو وہ بھی وہی بات کرتے ہیں، جب وہ آزاد چھوڑتے ہیں تو سیاستدان اپنی مرضی کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ کھیل اس مہارت سے سرانجام دیا جاتا ہے کہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے اور نہ ہی اصل حاکموں کا سُراغ کسی کو مِل سکے، بس آپس میں ہی لڑتے مرتے رہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کے مطابق کل یعنی 14 مئی کو پنجاب بھر میں صوبائی انتخابات ہونے تھے، تاہم پنجاب میں خاموشی رہی۔ الیکشن کمیشن، نگران وزیراعلیٰ، نگران سیٹ اپ مختلف بہانوں کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی سریع خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب میں انتخابات نہیں کروائے گئے، اس تمام صورتحال کا ذمہ دار اب کون ہے؟

اب سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے یا دباؤ ڈلتا دکھانے کے لئے پی ڈی ایم کی قیادت آج ریڈ زون میں احتجاج کرنے جا رہی ہے، کیا یہ اِس لئے کروایا جا رہا ہے کہ پنجاب کے انتخابات کا مسئلہ عدالت میں نہ اٹھایا جا سکے اور الیکشن کمیشن، صوبہ پنجاب کا نگران سیٹ اپ اور نگران وزیراعلی سب آئین سے متصادم ایک اَن دیکھے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں؟ کیا یہ سب جمہوریت کہلاتی ہے؟ کیا پاکستان میں آئین سے مذاق کا یہ پہلا واقعہ ہے؟ ہماری تاریخ ایسے متعدد واقعات سے پُر پڑی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اب تک آئین کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ یہ ستر کی دہائی نہیں 2023ء ہے بھیا۔ پاکستان کو ہی نہیں، کسی بھی ریاست یا ادارے کو بے آئین کرنے سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوتا۔ آئین کی حکمرانی اور اس کی پاسداری کسی بھی ریاست کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہی وہ دستاویز ہوتی ہے، جو ریاست کے مختلف اراکین اور طاقت کے حامل گروہوں کے مابین توازن کو برقرار رکھنے کی مؤجب ہوتی ہے۔ یہی وہ مسودہ ہوتا ہے، جو ہر شہری کو اس کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر اس مسودہ کو پس پشت ڈال دیا جائے تو ریاست میں جنگل کا قانون تصور کیا جانے لگتا ہے، افسوس کہ پاکستان آج تقریباً ویسا بن چکا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ آج پنجاب انتخابات کے حوالے سے کیا ری ایکشن دیتی ہے، اگر عدلیہ کو مزید دبایا گیا تو ممکن ہے کہ ملک کے قانونی حلقے بھی حرکت میں آئیں اور اگلا احتجاج وکلاء کی جانب سے کیا جائے۔ اس تمام بے چینی اور بے سکونی کا واحد حل آئین اور اس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد ہے۔ ملک چلانے والے طاقتور ہاتھوں کو اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ "ہُن پہلے دیاں گلاں نہیں رہیاں۔" لہٰذا اگر اس رسہ کشی کو مزید طول دیا گیا تو یہ ریاست اور ریاستی اداروں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوگا۔ ملکی معیشت جس صورتحال سے اس وقت دوچار ہے، اُس کے مطابق یہ عوامی غیض و غضب کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے، جو اچانک کسی طوفان کی صورت میں پھٹ سکتا ہے، جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ پس ریاستی و دفاعی اداروں کو آئین کے مطابق مقدم جانا جائے اور ان اداروں میں وہ کیا جائے، جو آئین میں طے ہے۔ اسی میں پاکستان کی فلاح اور سب کا وقار محفوظ ہے۔