انصاف پسند ہجوم اور ہماری ریاست

image

 دی ویووز نیٹ ورک: مارٹن لوتھر کنگ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ قانون کسی کو زبردستی مجھ سے پیار نہیں کروا سکتا لیکن یہ مجھے جان سے مارے جانے سے بچا سکتا ہے اور یہ میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ ہجوم کیا ہے؟ اس کی تعریف عموماً غلط کی جاتی ہے کہ لوگوں کا ایک جگہ اکھٹے ہو جانا ہجوم ہے۔ اصل میں ہجوم ان افراد کا مجموعہ ہے جن کی ذہنی سوچ یکساں ہوتی اور ان کا مقصد کہیں بھی اور کسی بھی طرح سے تحزیب کاری کر کے اپنے اندر کے غصے کو نکالنا ہوتا ہے۔ ایک ہجوم کے اندر ان شریر کاموں کے شیطانی احساس پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ ایک فرد انفرادی سطح پر اس کام کو سر انجام دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ایک فرد انفرادی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے یا ذمہ دار ٹھرائے جانے کے ڈر سے وہ کام سر انجام نہیں دیتا لیکن جب وہ ہجوم میں آ جاتا ہے تو لوگوں کا وہ اکٹھ اس کے سامنے ایک حفاظتی خول بن جاتا ہے اور وہاں پر وہ اپنے اندر کے شیطان کی طرف سے سپرد کیا ہوا فریضہ سرانجام دیتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ ہجوم میں یہ کام کر کے مجھے کسی نے کچھ نہیں کہنا۔

 ہجوم کے اندر رہ کر ایک شخص کتنا ہی شریر بن جائے وہ کسی کی جان لینے کی تو نہیں سوچ سکتا کیونکہ انسان ہوتے ہوئے ہر کسی کے اندر اتنا احساس تو موجود ہو جانا چاہیئے اور ہوتا بھی ہے۔ لیکن اس ہجوم کے بارے میں اور ان کی سوچ کے بارے میں ایک بندہ کیا کہے جس نے ایک نوجوان مشعال خان اور سری لنکن منیجر پریانتھا کمار کو مار ڈالا۔ انسانیت سے گرا ہوا کام کر کے اور درندوں کی خصلت اپنا کر پھر اپنے اس کام کو مقدس فریضہ قرار دینا اور اس پر فخر کرنا نہ صرف ان جاہلوں کی جہالت ہے بلکہ ریاست کی بے حسی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی اور بالخصوص نظام عدل کی ناہلی نے جاہل عوام کو یہ موقع دیا کہ وہ ریاست کے قوانین کو فخر کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کھیل رہے ہیں۔ 

پاکستان کی اس بدنصیبی کا آغاز آزادی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جب 1953ء میں مجلسِ احرار کی سربراہی میں احمدیوں کے خلاف جلوس اور ہڑتالیں شروع ہوئیں اور بات اس نوبت تک پہنچ گئی کہ ملک میں ایک منی مارشل لاء لگا دیا گیا اور جلاؤ گھیراؤ کے نتیجے میں 200 افراد جان سے گئے۔ یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ مشعال خان، پریانتھا کمارا، قائد آباد بینک مینجر، احسن اقبال پر حملہ خواجہ آصف پر سیاہی اور جڑانوالہ کی عیسائی برادری کے علاؤہ ایسی کئی مایوس کن مثالیں ہیں جو گواہی کے طور پر دی جا سکتی ہیں کہ کیسے پاکستان کی جاہل عوام نے فرقہ پرست، شدت پشند ملاؤں کے نرغے میں آ کر ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ 

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کچھ لوگ ہمارے ملک میں قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں؟ اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ ہمارے کچھ متشدد مذہبی علماء لوگوں کو اتنا متشدد بنا دیتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر گزرنے سے نہیں گھبراتے  تو بھئی ایسے متشدد علما دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ یہاں اگر مذہبی انتہا پسندی ہے تو کئی ملکوں میں قومی و سیاسی انتہا پسندی موجود ہے۔ مغرب میں آئے روز گستاخانہ مواقع ہوں یا انڈیا میں ہونے والے واقعات ہوں۔ یا 2011ء میں نیوزی لینڈ میں ہونے والا کرائسٹ چرچ کا واقعہ ایسے عناصر تو ہر جگہ موجود ہوتے ہی ہیں۔ ایسے عناصر کو موقع تب ملتا ہے جب ریاست کی مشینری کمزور ہوتی ہے یا ریاست نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام ایسے شر پسند عناصر کو ایسے کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ اس نطام میں اتنی سکت نہیں ہے کہ ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ ایسے اشخاص کے ذہن میں یہ بات کلیئر ہوتی ہے کہ اگر ہم پکڑے بھی گئے تو مذاکرات کے بعد ہمیں سیاسی قیدی تصور کر کے رہا کر دیا جائے گا۔ 

اب حل کیا ہے؟ حل سے پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم حل چاہتے ہیں؟ پچھلے عرصہ سے ہمارے قومی رویوں سے یہی لگتا ہے کہ ہم حل چاہتے ہی نہیں ہیں، اگر چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ان مسائل کی طرف جانا ہو گا جو عوام کو درپیش ہیں۔ قانون کی عدم دستیابی، معیاری تعلیم، معیاری خوراک، معیاری پانی، معیاری صحت، لوگوں کیلئے اچھی نوکری کا اہتمام، آبادی پر کنٹرول وغیرہ یہ سب مسائل ہیں۔ اگر ریاست ان مسائل کو حل کرے تو بات بن سکتی ہے لیکن ان کو مکمل ہونے کیلئے کم از کم 10 سال چاہئیں، تو کیا 10 سال اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں اور عوام ان جاہلوں کے ہاتھوں مرتے رہے گی؟ نہیں اس کیلئے ہم ایک اور راستہ اختیار کریں اور وہ یہ ہے ریاست ملک میں اپنی اجارہ داری ڈنڈے کے زور پر منوائے۔ ریاست یہ بات منوائے کہ اس ملک کی جے کانت شکرے میں ہوں۔ اس کیلئے ڈالیں ان سب شدت پسند عناصر کو جیل میں اور ان کی پارٹیوں کو بین کریں لیکن صرف یہی نہ کرتے رہیں بلکہ ساتھ ساتھ اوپر بیان کئے گئے مسائل پر توجہ دیں کیونکہ یہ حل تو نہیں ہے یہ تو اس شدت پسند سیلاب کے آگے عارضی بند ہے۔ اصل حل ان مسائل کا حل ہے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ 

پاکستان ہمیشہ زندہ باد