قربانی کا حقیقی مفہوم
دی ویووز نیٹ ورک: اسلام میں قربانی کا مفہوم و منشاء خود اس کے لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کے معنی رضائے الٰہی کو پانا اور اس کے قربِ خاص میں شامل ہونا ہے اور یہ قربِ خاص خواہشات نفسانی کی قربانی اور تسلیم و رضا کے پیکر بننے سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی قربانی اپنے نفس کی قربانی ہے اور نفسانیت ہی ﷲ تعالیٰ کے قرب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بڑے بڑے جانور کو قابو پاکر اسکو ذبح کرنا آسان ہے لیکن نفس پر قابو پانا اور اس کی خواہشات کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کا خون ﷲ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا، حقیقت میں ﷲ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ‘‘ (سورۃ الحج : ۲۲) قربانی سے مقصود دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا کرنا ہے اور یہی تقویٰ کی کیفیت مسلمان کو گناہ، نافرمانی اور خواہشاتِ نفسانی سے دور رکھتی ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی بیج بوتی ہے اور مسلمان اسی کیفیت سے ﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ، نیکوکار بندہ بن جاتا ہے۔
قربانی کی عید کے موقع پر واجب قربانی دینے کے ساتھ مقصد قربانی کو سمجھنا اور اس کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا ضروری ہے نیز نفرت و دشمنی، بغض و عناد، عداوت و زیادتی اور تکبر و غرور سے خود کو پاک کرنا بھی بڑی قربانی ہے۔ قربانی کا مقصد اور اسکی اصل روح یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی آرزؤں، تمناؤں، امیدوں، جذبات و خواہشات کو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے قربان کردے، صبح و شام کی پوری زندگی خدا کی تسلیم و رضا کا نمونہ بن جائے۔ خلیل اللہ سے پوچھو، ذبیح اللہ کو دیکھو۔ اسلام میں قربانی کا منشا خود اس لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کا منشا رضائے الٰہی کو پانا ہے اور اس کی قربت حاصل کرنا ہے۔ اور یہ قربت خواہشات نفسانی کی قربانی کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے اور نفس کی قربانی یہ ہے کہ انسان من مانی زندگی چھوڑ کر رب مانی زندگی پر اتر آئے اور رب مانی زندگی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے ہر کام میں اپنی نیت خالص رکھے کیونکہ نیت کے بدلتے ہی عمل میں کمی بیشی آجاتی ہے۔
اگر نیت اچھی ہوتی ہے تو عمل بھی اچھا ہو جاتا ہے اور اگر نیت کھوٹی ہوتی ہے تو عمل بھی کھوٹا ہو جاتا ہے مثال کے طور پر ہم دوسرے ایام میں جانور ذبح کرتے ہیں تو نیت اس سے ہماری صرف اسے کاٹ کر بیچنا یا صرف کھانا ہی ہوتا ہے اور اس پر ثواب بھی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم اسی جانور کو عید الاضحی کے دن اللہ کی رضا کے خاطر ذبح کرتے ہیں تو اسکا بہترین اجر بھی مرتب کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص عید الاضحی کے دن بھی اپنی نیت میں کھوٹ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ریا کاری یا دکھلاوے کیلئے ذبح کرتا ہے تو اسکا وہ ذبح کرنا یا قربانی کرنا سب بے کار ہو جاتا ہے۔ آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنا لی لیکن سنت ابراہیمی کو فراموش کرتے ہوئے اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں اس کا مقصد اللّٰه کی خوشنودی اور اسکی رضا ہے اگر قربانی کرتے ہوئے یہ جذبہ موجود نہیں تو صرف ایک رسم پوری ہوگی باقی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عید الاضحیٰ کا دن یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللّٰه کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ضروری ہے، یعنی ہمیں صرف مال و زر ہی خرچ نہیں کرنا ہے بلکہ اپنے اندر قربانی کی اصل روح بھی پیدا کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتے رہیں تا کہ آئندہ آنے والی عید الاضحیٰ پر ہم ایک بار پھر اسی نیک نیتی اور صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کر سکیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفٰی جانِ رحمتﷺ کا فرمان ہے’’أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ‘‘ کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاک وحلال چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کو دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے’’يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ‘‘ اے رسولو! حلال چیزیں ہی کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ بخوبی واقف ہے(المومنون:51) قرآن و حدیث کی روشنی ہم اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیشہ خود کو برائی سے روکنا اور خود کو حلال چیزوں اور اچھائی کی طرف راغب کرنا ہی اصل قربانی ہے۔
قربانی کے اس فلسفے کو سمجھنے کیلئے بس یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کو قربان کرنے کے بعد ہی انسان اصل نیکی یعنی اللہ تعالیٰ کے کرم و فضل کے سائے تلے آ سکتا ہے۔ جیسا کہ کلام پاک میں ارشاد ہے " لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ"
ترجمہ: تم ہرگز اصل نیکی نہیں حاصل کرسکو گے حتیٰ کہ اس چیز سے خرچ کرو جس کو تم پسند کرتے ہو اور تم جس چیز کو بھی خرچ کرتے ہو، اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے۔ (آل عمران) ناچیز کی ناقص رائے کے مطابق انسان کو اپنے نفس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، کبھی وہ اس کو عزتِ نفس کا نام دے لیتا ہے تو کبھی انا اور کبھی غرور و گھمنڈ یا پھر اس کی خواہشات جو اس کو ہمیشہ الجھا کر اپنے اصل مقصد یعنی معرفتِ الٰہی سے دور رکھتی ہیں۔ خلاصۂ کلام یہی ہے کہ اس پرفتن دور میں موجود تمام تر مسائل اور معاشرتی ناانصافیوں کا واحد حل اپنے نفس کی قربانی ہے۔ جب انسان اپنے نفس کو رضائے الٰہی کی خاطر قربان کردیگا تو پھر وہ ہمیشہ امن اور انصاف کیلئے کوشاں رہے گا، پھر انسان کا وجود ہمیشہ دوسروں کی خیر و بھلائی کا باعث بنا رہے گا۔a