شمعِ ہدایت، فلسفۂ حسینیت علیہ السلام
دی ویووز نیٹ ورک: زندگی شمع کی صورت ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جل کر پگھلتی رہتی ہے، شمعِ زندگی دوسروں کو اجالا تو بخشتی ہے مگر اس کو ہر وقت ہوا کے جھونکوں کا خوف بھی ستائے رکھتا ہے۔ یہی شمع جہاں روشنی کا باعث بنتی ہے کبھی کبھار اپنے ہی آشیانے کو جلانے کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ شمعِ زندگانی کو اگر ایک مضبوط شمع دان میسر آ جائے تو نہ صرف وہ ہوا کے جھونکوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ہوتا ہے، بلکہ شمع کو آتش گیری سے بھی باز رکھتا ہے۔ فی زمانہ زندگی کو دو ہی شمع دان میسر رہے ہیں ایک حسینیت اور دوسرا یزیدیت کا۔ اگر زندگی کو حسینیت علیہ السلام کی پناہ مل جائے زندگانی مثلِ گلزار بن جاتی ہے، جبکہ یزیدیت نشۂ طاقت اور مال و دولت ہے جو انسان کو رسوائی سے ہم کنار کرتی ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ ہے جس میں ہم مسلمان واقعہ کربلا کی یاد تازہ کرتے ہیں اور ہر مکتبۂ فکر کے لوگ اپنے اپنے انداز سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
معرکہ کربلا دو فلسفوں کا ٹکراؤ ہے، ایک طبقہ کہتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے اس کا ساتھ دو جبکہ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ حق ہی طاقت ہے اس کا ساتھ دو۔ طاقت کو حق ماننا یزیدیت اور حق کو طاقت ماننا حسینیت ہے، معرکہ کربلا انسانیت اور بربریت، امانت اور خیانت، عدل اور ظلم، صبر اور جبر، وفاء اور جفا، مساوات ایمانی اور مطلق العنانی کے درمیان جنگ تھی، یزید ظلم و جبر، آمریت، سفاکیت، خیانت، مطلق العنانیت اور کرپشن کا بانی تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس نظام ظلم و جبر کیخلاف حق کا علم بلند کیا، یزید کے نظام جبر اور ملوکیت کے تحت تین طبقات وجود میں آئے۔ ایک طبقہ اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر یزیدی نظام کا تابعدار اور مددگار بن گیا، دوسرا طبقہ عامۃ المسلمین کا تھا، یہ کمزور لوگ تھے جنہوں نے رخصت، خاموشی اور مصلحت کا راستہ اپنا لیا، یہ طبقہ یزیدی نظام جبر کا حامی تھا نہ اس نظام ظلم کیخلاف باہر نکلا، اس طبقے نے خاموشی اور عافیت کا راستہ اپنایا۔
تیسرے طبقے کا عنوان امام حسین علیہ السلام تھا اور اس نے راہ عزیمت کو اختیار کیا، اس طبقے نے پیغمبرانہ سنت اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے طریق اور طرز حیات کو زندہ کیا، یہ طبقہ شہید ہو گیا مگر اسلام کے آفاقی اصولوں کو ہمیشہ کیلئے زندہ کر گیا، 14 سوسال گزر جانے کے بعد آج بھی یہی دو فلسفے اور تین طبقے ہیں جن کے درمیان حق اور باطل کی جنگ اور جدوجہد جاری ہے۔ حسینیت اک ایسا نظریہ ہے جسے سیکھ کر انسان میں خود کو پہچاننے کا جزبہ ابھرنے لگتا ہے، حسینیت سوچ کے پیروکار یزیدِ وقت کے آگے کبھی نہیں جھکتے۔ اگر اس روز حسینی فوج جھک جاتی تو آج تلک ہر حق پر ہونے والوں کو جھکنا پڑتا، حق کا پرچم بلند کیا تھا امامِ عالی مقام علیہ السلام نے خود کو قربان کرکے یہ پیغام دیا کہ آنے والے وقتوں میں یہ بات پتھر پر لکیر ہوجائے کہ جو بھی یزید وقت کے آگے جھک جائے اسکا امامِ حسین علیہ السّلام والوں سے کوئی تعلق نہیں وہ اب تلک کربلا کے درس کو سمجھا ہی نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی جنگ اقتدار کیلئے نہیں تھی اس دین کو بچانے کیلئے تھی جسے محمدِ عربی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم پر مکمل کیا گیا تھا اور یہ دین انسانیت کا دین ہے کہ جس نے ہر انسان کو اسکی پہچان اسکی اہمیت دی ہے آزادی دی ہے حق پر چلنے کی باطل کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی۔
جیسا کہ مضمون کہ آغاز میں عرض کی گئی ہے کہ شمعِ زندگانی کا فانوس اگر حسینیت کا ہو تو زندگی نہ صرف پاکیزہ بلکہ ایک نمونہ بن جاتی ہے، ہم واقعہ کربلا کو ماضی کا ایک درد بھرا قصہ جان کر سنتے ہیں مگر آئیے دورِ حاضر میں فلسفۂ حسینیت کا موازنہ کرتے ہیں۔ آج اگر دنیا میں ناانصافی، جدت پسندی کے نام پر بےحیائی، ٹیکنالوجی کی آڑ میں طبقاتی تقسیم، طاقتور ترین حلقوں کی کمزوروں پر بربریت کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو آج کے یزید کی پہچان ہوگی۔ فلسطین، کشمیر، برما، شام اور افغانستان سمیت مسلم امہ پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی یزیدیت سوچ کا شاخسانہ ہی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کے اردگرد حق گوئی کو جرم بنا کر عوام الناس کو پابندِ سلاسل کرتے ہوئے ان کو ظلم، ناانصافی اور کرپشن کا مدعا بنانا بھی یزیدیت کا طریق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم طاقت کا ساتھ دے کر خود کو مضبوط بنانے کے چکر میں یزیدیت کو سہارا دینا ہے یا خاموشی اختیار کرکے اس کا سہولت کار بننا ہے یا پھر تمام تر مشکلات کو پسِ پُشت رکھ کر نعرۂ حسین علیہ السلام کو بلند کرنا ہے۔
ہر وہ چیز جو ہمیں حق پر چلنے سے روکے وہ گمراہی ہے، اگر ہم اپنی آسائشوں اور عیش و عشرت کے پیچھے لگ کر یا پھر اپنے کاروبار کی ترقی و عہدے کی لالچ میں مبتلا ہو کر زمانے میں ہونے والی ناانصافیوں کا ساتھ دیتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ یہ معاشرہ ترقی کرے گا۔ اپنے مفادات کا سوچنا یہ فطرت ہے اور عدل و انصاف، مساوات اور امن کا قیام قدرت ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فطرت سے نکل کر قدرت میں داخل ہوں اور ملک و قوم اور معاشرے کی اصلاح و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ بطور مسلمان ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا ورد کرکے ثواب کمانے کے بجائے ان اوصافِ ربانی جل جلالہ کے مصداق بن جائیں تاکہ معاشرے میں امن، محبت، رواداری اور انصاف کا بول بالا ہو۔ ہم صرف مولویوں کی سریلی تقاریر یا نوحے سن کر امام حسین علیہ السلام کا ماتم نہ منائیں بلکہ طریقِ امام حسین علیہ السلام کو فلسفۂ حسینیت علیہ السلام کو اپنا کر یزیدیت کا قلع قمع کریں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس بے راہروی، عدم برداشت اور گمراہی کے جُنگل سے نکل سکے۔ حسینیت علیہ السلام زندہ باد کے نعروں سے آگے بڑھ کر حسینیت علیہ السلام کا عملی مظاہرہ کریں تاکہ ہم بھی زندہ باد ہو جائیں۔ بقول حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللّٰہ علیہ
جے کر دین علم وِچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھُو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا اَگے حسین (علیہ السلام) دے مردے ھُو
جے کجھ ملاحظہ سرور دا کردے تاں تمبو خیمے کیوں سڑدے ھُو
جے کر مندے بیعت رسولی پانی کیوں بند کردے ھُو
پر صادق دین تنہا دا باھُو جو سر قربانی کردے ھُو