مہذب معاشرہ کامیابی کی ضمانت

image

دی ویووز نیٹ ورک: افراد کا ایسا مجموعہ جو مل جل کر رہتے ہوں معاشرہ کہلاتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان اس کے رہن سہن، اسکی روایات اور اس کے اصول و ضوابط پر ہوتی ہے۔ جس معاشرے کے لوگوں کا رہن سہن اچھا ہو آپس میں معاملات درست ہوں اور وہ پرامن طریقے سے زندگی گزار رہے ہوں ایسے معاشرے کا شمار مہذب معاشرے میں ہوتا ہے۔ آج جو معاشرے مہذب نظر آتے ہیں ان کے پیچھے ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے، افراد کی اخلاقی، علمی، فکری، نظریاتی اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھا کر ہی بہترین معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے، ایسے معاشرے تعمیر کرنے کی کوشش میں لوگوں کی زندگیاں لگی ہوتی ہیں۔ قومیں قربانی دیتی ہیں تب مہذب معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ آج اگر ترقی یافتہ معاشرے کی بات ہوتی ہے تو لوگ مغرب کی مثال دیتے ہیں، کیوں؟ کیا ہم نے اپنی تاریخ کھودی ہے؟ کیا ہماری تاریخ روشن نہیں رہی؟ کیا ہم مسلمان اب کافروں کی مثالیں دیں گے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہماری ایک روشن تاریخ ہے۔ زمانہ جہالیت سے مشہور قوم کی بہترین تربیت کرنے کے بعد ہمارے نبی کریم ﷺ  نے مہذب معاشرے کی بنیاد آج سے ساڑھے  چودہ سو سال پہلے رکھی تھی جو ریاست مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ 

ہمارے پاس "غارِ حرا" ہے جو دنیا سے کٹ کر اللہ کے ساتھ جڑ جانے اور حصول علم کی دعوت دیتی ہے۔ "دار بنی ارقم" ہے جو ہمیں داعی بناتا ہے، "غارِ ثور" ہے جو ہمیں اللہ کے لیے نعمتیں چھوڑ کر ہجرت کرنا سکھاتی ہے، ہمارے پاس"عقبہ کی گھاٹیاں" ہیں جو ہمیں نصرت سکھاتی ہیں، ہمارے پاس بدر کا میدان ہے جو ہمیں اللہ پر کامل یقین سکھاتا ہے، صفہ کا چبوترہ ہے جو نفس کی اصلاح اور روح کی غذا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پہچان کا درس دیتا ہے۔ احد کا پہاڑ  ہے جو ہمیں اسقامت کا درس دیتا ہے، حدیبیہ کا درخت ہے، جو مسلمانوں کے درمیان مختلف جسم ایک جان بن جانے کا سبق دیتا ہے۔ میدان کربلا ہے جو ہمیں اللہ کی محبت میں اس  کے دین کی سربلندی کیلئے جان، مال اولاد اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتا ہے۔ زمزم کا کنواں ہے جو ہمیں دین کیلئے عملی جدوجہد کا پیغام سناتا ہے۔ ہم مسلمان ظاہری اور باطنی دینی اور دنیاوی طور پر مالا مال لوگ ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف عمل کی باقی سب کچھ رہنمائی کیلئے پہلے سے موجود ہے۔

آج ہم صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں۔ اب ہم "یہاں سب چلتا ہے" کا نعرہ لگا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یاد رکھیں، جس معاشرے میں سب چلتا ہے وہ معاشرہ بڑی مشکل سے چلتا ہے۔ آج ہمیں پھر سے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا فرض نبھانا ہوگا آج ہمیں فتح دلوانے کے لیے کوئی سلطان ایوبی نہیں آئے گا، محمد بن قاسم نے لوٹ کر نہیں آنا، یورپ کو روشنی دینے والا طارق بن زیاد اپنی ذمہ داری ادا کر چکا، اب کوئی محمود غزنوی نہیں آئے گا، بلکہ ہمیں خود پر انحصار کر کے یکجا ہو کر کام کرنا ہوگا اور اپنے معاشرے کی اکائیوں کی اصلاح کر کے اسے بہترین اور مضبوط معاشرہ بنانا ہوگا۔  ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم اگر چاہیں تو اس دنیا پر دوبارہ حکمرانی کر سکتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم چاہیں تو جس معاشرے کی بنیاد ہمارے نبی کریم ﷺ نے رکھی تھی اس کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ ایک مسلمان ٹوٹ تو سکتا ہے لیکن کبھی ہار نہیں سکتا۔

آج مغرب نے پوری دنیا پر اپنا لوہا منوایا ہوا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کسی ملک پر پابندیاں لگا دیتا ہے وہ جب چاہتا ہے پابندیاں ہٹا دیتا ہے۔ اگر مغرب کی ترقی پر غور کیا جائے تو اپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کی ترقی کے پیچھے ہمارے اباؤ اجداد کا علم ہے۔ سنہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد وہ ہماری کتب اٹھا کر لے گئے اور ان پر ریسرچ کر کے، مطالعہ کر کے آج وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آج سائنس نے جتنی ترقی کی ہے اس کے پیچھے ابن سینا، ابن رشد، الکندی جیسے مسلمان سائنسدانوں کا علم ہے۔ پولیس کا نظام، عدل کا نظام، جیل خانہ جات، یہ سب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی پیداوار ہیں آج یہود ہمارا ہی علم پڑھ کر ہم پر ہی بادشاہت کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جب یورپ گئے  اور ان کی لائبریریوں میں اپنے آباؤ و اجداد کی کتب دیکھی تو فرمایا تھا "وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ" فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا کہ ہماری کتب یہاں کیسے آئیں ان کو تو ہماری لائبریریوں میں ہونا چاہیے تھا- لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا معاشرہ ان چیزوں سے محروم ہے- کتاب بینی کا شوق آے روز کم ہوتا جا رہا ہے۔

 سوشل میڈیا نے ہمارے ذہنوں کو باندھ دیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے "کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے۔ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی" اج کل کی نوجوان نسل میں کتابوں کا شوق نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج کا مسلمان کیوں پستی کا شکار ہے؟ دنیا کی ساری آزمائشیں اس پر ہیں۔ کیوں، آج ہمارے گھروں میں سکون نہیں ہے۔ کیوں، آج معاشرے میں ہر بندہ دوسرے کی خوشی برداشت نہیں کر سکتا۔ کیوں؟ کیوں آج بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے؟ ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے آج ہم اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کی بجائے دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ نہ ہمیں دن کا سکون میسر ہے نہ رات کی نیند، کیونکہ ہم نے خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہونا اسکو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آج ہم اللہ سے مدد مانگنے کی بجائے یورپ  سے مدد مانگنے نکلے ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کی لذتوں میں کھو کر یہ بھول چکے ہیں کہ ہر لذت کی انتہا بیزاری  ہے۔  ہم اپنے آباء کی تاریخ بھولے بیٹھے ہیں ہم ان جوانوں کو بھولے بیٹھے ہیں جن کی آمد سے میدان کانپ جاتے تھے دشمن پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ ہم ان شیروں کو بھولے بیٹھے ہیں جو ایک ہی بار میں سیکڑوں گردنیں اڑا دیتے تھے۔  ہم ان مرد مجاہد کو بھولے بیٹھے ہیں کہ جن کی آمد پر یہ آوازیں اتی تھیں "کس شیر کی امد ہے کہ رن کانپ رہا ہے"  ہم سب کو آج اپنا آپ  پہچاننے کی ضرورت ہے۔ 

آج ہمیں علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ سے خودی کی پہچان کا طریقہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مطالعہ کی ضرورت ہے، ریسرچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دکھانا ہوگا کہ ہم اپنے آباء کی تاریخ بھولے نہیں ہیں۔ نوجوان اسلامی اسکالر صاحبزادہ سلطان احمد علی فرماتے ہیں احمد اجالی ہے اگر زندگی کی رات، رکھ دوستی کتاب سے رہ دیدہ ور کے ساتھ" اس نفسا نفسی کے دور میں بھی یہ اللہ کے برگزیدہ بندے نوجوانوں کی رہنمائی میں مصروف عمل ہیں۔ شاید ایسے لوگوں کے بارے میں اقبال نے کہا تھا "محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند"  ہمیں اپنے معاشرے کو مہذب بنانے کیلئے اپنے آباء کی تاریخ دوہرانی ہوگی۔ ہمیں اپنے آخری نبی ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے بتائے ہوئے راستے کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں ان جوانوں کی تاریخ کو زندہ کرنا ہوگا جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا "دشت تو دشت ہیں صحرہ بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے" آخر پر اس پیغام کے ساتھ آجازت چاہوں گا کہ معاشرہ ہم سے ہے اور ہم معاشرے سے ہیں لہذا اس معاشرے کو مہذب بنانے میں ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ" حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا اغاز ہی اقراء سے ہوا تھا"۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنےخصوصی کرم سے ہمیں مدنی معاشرے میں تبدیل کر دے تاکہ ہم عزت، حریت اور سربلندی سے زندگی گزار سکیں۔ آمین