مسٸلہ فلسطین پر شاعرِ مشرقؒ کے خط و کتابت اور جدوجہد

image

دی ویووز نیٹ ورک: پاکستان کے معرضِ وجود آنے سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی جماعت آل نڈی مسلم لیگ تھی جس کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کا مقصد ایک آزاد ریاست کو منتخب کرنا تھا لیکن اس دوران بھی بانیان پاکستان میں مسئلہ فلسطین پر اپنی آوازوں کو بلند کیا۔ زیرِ غور بات یہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے خطوط و بیان اور جدوجہد کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔ نا چیز اس کالم میں علامہ محمد اقبالؒ کی جدوجہد اور خطوط کے بارے میں آگاہ کرے گا۔ اگلی قسط میں قائد اعظمؒ کی جدوجہد کے بارے میں روشنی ڈالوں گا۔ واضح رہے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا ۶1937 میں بھی مسئلہ فلسطین کے حق میں خط و کتابت کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کہا فلسطین کے مسئلے کیلٸے مسلم لیگ ایک مضبوط قرارداد منظور کروائے گی اور فلسطین عربوں کی حمایت کیلٸے مثبت ثابت ہوگی۔ علامہ اقبالؒ نے اتنا بھی کہہ دیا تھا کہ مسئلہ فلسطین کیلٸے جیل بھی جانا پڑا تو جاؤں گا۔

 جب عالمی سطح پر پہلی جنگ جاری تھی اس دوران بھی ایک نیا باب شروع ہو چکا تھا سلطنت عثمانیہ میں کالی بھیڑوں نے منافقت کا ایسا بیج بویا جس میں اپنی جڑوں کو مضبوط کیا اور اندر ہی اندر عالمی جنگ دوم کے خاتمے تک فلسطین میں برطانوی سامراج نے جان بوجھ کر یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کیلئے کہا گیا اور ۶1948 میں فلسطینیوں کے سینوں میں خنجر گھونپ کر اسرائیلیوں کی ناجائز ریاست قائم کر دی لیکن شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اپنی حیات میں ہی اس تباہی و بربادی کے خدشہ دیکھ چکے تھے۔ مسئلہ فلسطین پر آپ کی توجہ مرکوز تھی۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے 30 دسمبر ۶1919 کو لاہور میں خطاب کر کے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی جو سرزمین ہے ان کو دی جائے اور وعدے کو پورا کیا جائے۔ شاعر مشرق رحمتہ اللہ علیہ نے زور دیا کہ مسلمانوں کی سرزمین کا حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہ کیا جائے۔ ۶1924 اور اس سے پہلے شاعر مشرق آگ بگولہ کی طرح تڑپتے رہتے۔ آپؒ کئی مرتبہ برطانوی سامراج کو اڑے ہاتھوں لیتے رہے اور مسلمانوں کو شعور سے روشناس کرتے رہتے تاکہ قوم مشرق وسطیٰ پر اکٹھی ہو سکے۔ اقبالؒ اکثر یہ فرماتے تھے کہ یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ مغرب کو لے ڈوبے گا اور آج عملی نمونہ سب دیکھ رہے ہیں آپ سب کو معلوم ہے کہ امریکی جیسے طاقتیں اور سیاسی جماعتیں یہودیوں کے زیر سایہ ہیں۔

 تیسری میز گول کانفرنس 17 نومبر ۶1932 میں جو رونما ہوئی تھی اس میں علامہ اقبالؒ نے اپنی آواز اٹھائی تھی کہ برطانوی سامراج کو اس سے باز آنا چاہیے اگر عرب سے اچھے تعلقات بھی ہیں۔ واضح رہے کہ فلسطین مسلمانوں کا ہے اسے صہونیت کے حوالے نہیں کریں گے۔ علامہ اقبال نے ۶1933 میں مجلس قانون ساز میں خطاب کیا تھا کہ مسلمان دوسرے مسلمان سے محبت و ہمدردی رکھتا ہے شاعر مشرقؒ نے برطانوی حکومت کی فلسطین اور وزیرستان میں اختیار کردہ پالیسی کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔ برطانیہ نے ۶1936 میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو اقبال نہایت افسردہ ہوئے اور آپ نے اس سازش پر برطانوی مارگریٹ فار قورہر سن کے نام 20 جولائی ۶1937 کو خط لکھا کہ میں اس وقت بیمار ہوں جو حالات اور احساسات پیدا کر دیے ہیں میں تفصیل سے تحریر نہیں کر سکتا۔ پوری نیشنز کو چاہیے کہ اس وقت یک جان ہو کر اس ظلم کے خلاف احتجاج کو بلند کیا جائے اور عربوں سے نا انصافی نہ کی جائے۔

 اقبالؒ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہودی حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں داخلہ فلسطین سے قبل ہی فلسطین کو خیر باد کر چکے تھے لیکن برطانیہ نے جان بوجھ کر اس خطے کو یہود و عرب کی کشمکش گاہ بنایا اور آپ نے یہ بھی کہا کہ فلسطین کی تقسیم کا سوال صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جو تمام عالم اسلام پر یکساں مٶثر ہے۔ اگر ہم اس مسئلے پر تاریخی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ خاص اسلامی مسئلہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔ یروشلم میں حضرت عمر بن خطابؓ سے بہت پہلے مسئلہ فلسطین کا اسرائیلی پہلو ختم ہو چکا تھا۔ اقوامِ متحدہ اور پوری امت مسلمہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے تاکہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی آزادیہ سے رہ سکیں۔

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ میرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار