سر زمین فرانس پر سجدہ شکر

image

دی ویووز نیٹ ورک: اگست کے بابرکت مہینے میں پاکستان کے ایک اور بیٹے نے اس مٹی کو انمول تحفہ دیا۔ 32 سال بعد فرانس میں منعقدہ پیرس اولمپکس میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے نیزہ پھنکنے (جیولین تھرو) میں بازی جیت لی ہے۔ انہوں نے اس مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کرکے نہ صرف پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا بلکہ 57 اسلامی ممالک میں بھی نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ عالم اسلام میں ارشد ندیم پہلے ایسے ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے 92.97 میٹر دوری جیولین تھرو کرکے پہلے نمبر کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا جبکہ اس کامیابی کے بعد ورلڈ ریکارڈ میں وہ دنیا کے چھٹے بہترین کھلاڑی شمار کیے جارہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب وہ دنیا کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ زچ ریپبلک کے جان ذیلزینی سے محض 5.43 میٹر کی دوری پر ہی ہیں۔ میری طرح ہر پاکستانی کی اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی جب تقسیم انعامات کے وقت سبز ہلالی پرچم کو ہوا میں بلند کیا گیا اور پورا گراؤنڈ ہمارے دلوں کی تار سے جڑے قومی ترانے سے گونج اٹھا۔ کیا ہی بہترین لمحات تھے! 

آج میڈیا ارشد ندیم کی اس بہترین کارکردگی پر انہیں داد دے رہا اور وہ اس کے قابل ہیں بھی، مگر میں نے ان کی کامیابی کو الگ زاویے سے دیکھا۔ اس اعلیٰ کامیابی کے بعد ارشد ندیم نے اغیار اور انتہا پسند سوچ کے سامنے زمین پر سجدہ شکر ادا کرکے بہت اہم پیغامات دیے۔ کھیلوں سے شغف رکھنے والے میرے دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا منظر ہم نے کئی بار دیکھا ہے تو اس سجدہ شکر میں ایسا کیا خاص تھا؟ پہلی بات کہ انہوں نے دنیا کو یہ میسج دیا کہ ہم دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام بھی حاصل کرنے کے بعد کس ذات کے سامنے اپنے آپ کو جھکاتے ہیں؟ اس عمل سے انہوں نے دنیا کو بتایا کہ کامیابی کا حقیقی حق تبھی ادا ہوتا ہے جب بندہ اپنی تمام تر کامیابیوں کا پیش خیمہ اس ذات کریم کو بناتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں اس زمین کی سانس بلکہ کائنات کا ہر ذرہ ہے۔ 

انہوں نے اس فرانس کے نیم صدارتی نظام میں سجدہ شکر ادا کرکے حق کا پیغام بلند کیا جہاں کی پارلیمان و اسمبلی سے لے کر عوام الناس تک مسلم امہ کے لیے منافرت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اسی فرانس میں جہاں کی کم وبیش 7 فیصد مسلم کمیونٹی کو اسلام و فوبیا کے اس کرب سے گزرنا پڑرہا ہے جنہیں ہر روز تعصب، خوف اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہی وہ آلودہ نظام ہے جس نے اقوام عالم کو اسلام و فوبیا جیسی انتہا پسند سوچ سے روشناس کروایا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس مرتبہ اولمپکس کے افتتاح میں فری میسن سوچ کی پیروی کرنے والے ایلومیناتی، ایل جی بی ٹی اور چرچ آف سائنٹالوجی کے ایجنڈا کو کھل کر دنیا کے سامنے لایا گیا۔ اس ماحول میں پاکستان بلکہ اسلام کا گولڈ میڈل حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں۔ جہاں شیطان نے اپنا اصل دیکھایا وہاں رحمان نے اپنی طاقت دکھائی۔ مجھے ارشد ندیم کی اس جگہ کامیابی سے یہ بات بھی سمجھ آئی کہ حق اور باطل دونوں ہروقت صرف ساتھ ساتھ نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں اور وہ ذات اپنا نام بلند کروانے کیلئے کسی جگہ، کسی میدان اور کسی کو بھی منتخب کرسکتی ہے۔ 

اسی کامیابی کو دوسری آنکھ سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کامیابی کی پہلی کنجی ہے، اور جب کوئی شخص عطا کردہ کامیابی کے دروازے سے گزرتا ہے تو وہ سر اٹھاتا نہیں بلکہ جھکا لیتا ہے۔ وہ اپنے مالک کے سامنے عرض گزار ہوتا ہے کہ ایک کنکر کو ہیرے کی جگہ دینے والی ذات تیرا کروڑ شکر وگرنہ اس عزت کیلئے تو میری اوقات کی بھی اوقات نہیں۔ ویلڈن مسٹر ارشد ویلڈن! بلکہ وہ ذات کہتی ہے کہ 

کوئی قابل ہو تو ہم شان کائی دیتے ہیں 

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں 

یہاں ایک اور تار کو بھی چھیڑتا چلوں کہ یہ بات ہر زبان زدعام ہے کہ اگر کسی شخص کو دولت، عزت، طاقت، کثیر علم اور عہدہ مل جائے تو وہ بدل جاتا ہے اور اس کے وجود میں انا پرستی اور تکبر جگہ لے لیتا ہے اس ضمن میں دو نقاط پر نظر ضروری ہے، پہلی یہ کہ درج بالا بہتات کے بعد دراصل وہ شخص تبدیل نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر چھپی خصلت طاقتور ہو جاتی ہے جو اسے وہ تمام اعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے جو وہ اس سے قبل کرنے سے قاصر تھا۔ بالکل اسی طرح اگر اس شخص میں عجز کا عنصر ، حلم اور بردبار طبعیت اور شاکر مزاج پایا جاتا ہے تو یہ بہتات ان بہترین عادات کو چار چاند لگا دیتی ہیں اور میرا مالک ایسے شخص کے قد مزید بڑا کردیتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ سخت ماحول اور گراس روٹ لیول سے گزر کر ترقی حاصل کرنے والوں میں جھکاؤ اور عاجزی پیدا ہوتی ہے جبکہ براہ راست عہدوں پر براجمان لوگوں میں انا، اپنی جڑیں مضبوط کرلیتی ہے۔

دعا ہے کہ وہ ذات ہمیں کامیابیوں پر اپنا شکر ادا کرنے والا بنائے اور یہ کامیابیاں ہمیں اس کریم ذات کے زیادہ قریب کردیں تاکہ ہم میں تکبر کا جذبہ سانس بھی نہ لےسکے۔