نظریۂ پاکستان سے انحراف کی وجہ اہل قیادت کا فقدان
دی ویووز نیٹ ورک: پاکستان کا قیام نظریۂ لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہ پر ہوا ہے۔ مسلمانانِ ہند مختلف اقوام کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے مگر ہمارے قائدین نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے نظریۂ ضرورت کو رد کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پیش کیا جو کہ مملکتِ خداداد کے قیام کا باعث بنا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ دو قومی نظریے کے بہت بڑے دعویدار اور علمبردار تھے وہ اس بات کے خواہشمند تھے کہ اسلامیاں ہند اپنے لئے ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ریاست تشکیل دیں جہاں وہ اپنے عقائد، رسوم و رواج، تہذیب اور مذہبی اقدار کے تحت زندگی گزار سکیں۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مختلف موقعوں پر کانگرس کے متحدہ قومیت کے دام ہمرنگ زمین کو تار تار کیا۔ درحقیقت وہ ہندوستان کے واحد اور دور اندیش رہنماء تھے جو کانگرس کے اصل عزائم سمجھتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم ثابت کرنے کیلئے ہمیشہ دلائل اور شواہد سے کام لیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمان جداگانہ قومیت کے مالک ہیں۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کیلئے دو قومی نظریے کی وضاحت کیلئے 6 مارچ 1940ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح اقلیت میں نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک ممتاز قوم ہیں۔“
قائداعظم نے 1940ء کے آغاز میں انگلستان کے ایک اخبار میں لکھا ”جمہوریت کا تصور ایک قوم کے مفروضے پر مبنی ہے، خواہ اقتصادی طور پر وہ قوم کتنے ہی مختلف عناصر کا مجموعہ ہو۔ انگریزوں کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہئے کہ ہندو دھرم اور اسلام دو مختلف اور الگ تہذیبوں کی نیابت کرتے ہیں اور ایک سے دوسرے اپنی اصل روایات اور طرزِ زندگی میں اس قدر مختلف ہے جتنی کہ یورپ کی مختلف اقوام۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو مختلف قومیں ہیں۔“ قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے 1929ء میں اپنے معروف چودہ نکات کے ذریعے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے تحفظ کیلئے مطالبات پیش کئے۔ ان میں بارہواں نکتہ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان، تعلیم، مذہب اور پرسنل لاء کے تحفظ کے بارے میں تھا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 6 مارچ 1940ءکو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کھل کر دو قومی نظریے کی حمایت کی اور کہا ”جہاں تک مجھے اسلام کا علم ہے وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو غیر مسلم اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔ ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر اکثریت محض تعداد کے بل بوتے پر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے۔“
پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے 25 جنوری 1948ء کو عید میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیہ میں کہا ”کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہوگی جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ مفسد ہیں۔ ہماری زندگی میں آج بھی اسلامی اصولوں پر اس طرح عمل ہوتا ہے جس طرح کہ تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے جمہوریت دکھائی ہے، مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ لہٰذا اسلامی اصول پر عمل کرنے سے ہم ہر ایک کے ساتھ انصاف کرسکیں گے۔“ یہ تو اس وقت کی قیادت تھی جس نے نہ صرف پاکیزہ طرزِ زندگی کے نصب العین پر اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی مگر دورِ حاضر کے حکمران اس نظریہ سے انحراف کرکے نظریۂ ضرورت کو اپنانے پر اکتفاء کر بیٹھے ہیں۔ ہم کو خواہشات کے میٹھے زہر پر لگا کر لا الہ الااللہ محمد رسول اللّٰہ سے مکمل طور جدا کر دیا گیا ہے۔ آج کون ہے جو تمام لوازمات سے ہٹ کر صرف رضائے الٰہی کی خاطر زندگی گزارنے کو ترجیح دے، کوئی بھی نہیں، کیونکہ ہمارے اسلاف کی زندگیوں کے بجائے ہمیں کوئی اور ہیروز دکھائے گئے ہمیں روحانی پیشوا کے بجائے نفسانی پیشواؤں کے پیچھے لگا دیا گیا۔
بطور مسلمان ہمیں قیادت کے واضح اصول بتائے گئے ہیں۔ قیادت میں چند صلاحیتیوں کا ہونا ضروری ہیں، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ’’اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اور اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (اپنے صاحبان امر) کی‘‘ (النساء 59) سورۃ النساء کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔ اُولِی الْاَمْرِ کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ قیادت (اُولِی الْاَمْرِ) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں۔ صاحبان امر (قیادت) کے نظریات، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنتِ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائقِ اتباع و قابلِ اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں، ان کی اطاعت کرنا اوران کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اگر وہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں تو ان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔‘‘ علاؤہ ازیں وہ صاحبِ علم ہو ہے کیونکہ صاحب علم قائد خود بھی اور عوام کو بھی اللہ کے احکامات سے آگاہی دیتا ہے اور اس کے حضور پیش ہونے کیلئے تیاری کا درس دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’یقیناً بندوں میں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے علم والے ہی ہوتے ہیں۔‘‘(فاطر28) قائدِ ملت کو صرف ایک ذات کے آگے جھکنے کی عادت ہو تاکہ وہ ملی مفادات کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی نہ ڈرے، کیونکہ حکم مبارک بھی یہی ہے "جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔" (محمد:19)
لیڈرشپ کو حکیم ہونا چاہیے کیونکہ دانش مندی اور حکمت مظاہرِ عقل میں سے ایک عظیم مظہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔‘‘ (البقرہ 269) اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ پر یقین انسان کو بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں!
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بدتر ہے بے یقینی۔ قوم کا سردار پاکیزہ اوصاف کا حامل ہو جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔‘‘ ( الاعلیٰ) لیڈر شپ ہمیشہ فلاحِ عوام کیلئے کوشاں نظر آئے ’’لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے۔‘‘ مزید یہ کہ وہ صابر و شاکر ہو کسی مشکل وقت میں وہ رب العالمین سے رجوع کرے حکم بھی یہی ہے اور جو بھی مصیبت تمہیں پہنچے، اس پر صبر کرو، بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ (سورہ لقمان) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں’’فتح امید سے نہیں، یقینِ محکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ طارق بن زیاد کو جب اندلس کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا ساحلِ سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک تاریخی اور حیران کن اقدام کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلا دیں اور فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی کہ’’ہم لوگ یہاں اللہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی حکومت قائم کرنے کیلئے آئے ہیں اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں گے یا پھر اپنی جانیں جانِ آفریں کے حوالے کردیں گے لیکن اللہ کی حکومت قائم کیے بغیر نہیں لوٹیں گے۔‘‘ یہ طارق کی اولوالعزمی ہی تھی کہ پوری فوج میں ایک ولولہ پیدا ہوگیا اور انھوں نے اندلس کو فتح کرلیا۔
بنی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عالی شان ہے ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘ (بخاری) اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایسا انسان جو احساسِ ذمہ داری رکھتا وہ اپنی عوام فکر مند رہتا تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ شرمندہ نہ ہو۔ قائدِ عوام کو امانتدار اور عدل وانصاف کا پیکر ہونا چاہئے ’’مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء 58) ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے وہ خود تمہیں نصیحت کررہا ہے کہ تم نصیحت کرو۔‘‘ (سورہ النحل) جب تک ایسے اوصاف والا لیڈر ہمیں نہیں مل جاتا ہم حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ اس مظلوم امتِ مسلمہ کو ایسے قائد کی اشد ضرورت ہے جو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی سفاکیت کو روکے، جو اپنی حکمت دانائی اور یقینِ کامل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اور اغیار کی زندگیوں کو راحت بخشے۔ ایک عادل حکمران ہی کرپشن اور بے راہ روی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ جب تک لیڈرشپ کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کے نور میں غرق نہ ہو اس کا وجود کیسے بھلائی کا سر چشمہ بن سکتا ہے؟ ایسا حکمران جس دن ہمیں نصیب ہوگیا اس دن یہ قوم دنیائے عالم پر حکومت کرے گی یہ قوم نظریۂ پاکستان لا الہ الااللہ محمد رسول کی طرف لوٹے گی تو پھر یہ نعمتِ عظمیٰ نصیب ہوگی۔