پاکستان کے سول ایوارڈ پر ایک نظر

image

دی ویووز نیٹ ورک: دنیا میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی غیر معمولی کامیابیوں اور مثبت کاوشوں کو بذریعہ نیشنل ایوارڈ سراہا جاتا ہے۔ ملک کا یہ ایوارڈ اس لئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ان ایوارڈز کے توسط سے صحت مند طرز انداز میں کامیاب شخصیت کی قدر میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔ قومی سطح پر خدمات کے اعتراف سے نہ صرف اس شخص بلکہ ملک و قوم کے وقار اور تعمیری قد میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ان ایوارڈز کی ابتداء 1958ء میں ہوئی لیکن بدقسمتی سے ہر سال ماسوائے چند نامور اور اہم شخصیات کے بڑے ایوارڈ ان لوگوں کے ہاتھ میں گئے جن کا تعلق ڈرامہ انڈسٹری سے ہے جبکہ ان کے توسط سے معاشرے کو اخلاقی، سماجی، تہذیبی اور ادبی تنزلی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ یہ طبقہ نسل نو کی تعمیری، علمی اور ادبی میدان میں قابل قدر خدمات دینے سے قاصر ہے، برعکس اس کے باقی ممالک حتیٰ کہ پڑوسی ممالک میں ان کٹیگریز کو سر فہرست رکھا جاتا ہے جو ان ممالک کی حقیقی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں ترجیحی بنیادوں پر ڈرامہ انڈسٹری کو اہم ایوارڈز کا حقدار بنا کر ہم نے اداکار، موسیقار، فنکار، ہدایت کار اور ڈرامہ و ناول نگار شخصیات کو ہمیشہ فوقیت دی یا پھر اپنے پسندیدہ مہروں کو تحفہ دے دیا۔ ڈرامہ انڈسٹری پر بات کریں تو دور حاضر میں خفیہ تباہی کی بہترین مثال ہے، جس میں نئی نسل کو غیر قانونی تعلقات، مغربی آزادی، ایل جی بی ٹی ایجنڈا، بےحیائی اور خاندانی سکون کی تباہی کے سوا کسی چیز کی ترغیب نہیں دی جارہی۔ مثال کیلئے ہر چینل کا ڈرامہ آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں مگر میری بات کی مکمل تصدیق کیلئے پاکستانی اداکاروں کی ایسی کارکردگی آپ برزخ جیسے خبط الحواس ڈرامے میں دیکھ سکتے ہیں جس نے پاکستانی انڈسٹری کے تمام ریکارڈ توڑ دئے اور ہماری روایات کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حالیہ سال پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک رقاصہ شیما کرمانی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا! میں پوچھتا ہوں ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہماری یہ انڈسٹری مشرقی ثقافت، اسلامی روایات اور پاکستانی اقدار کو کتنی مضبوطی دے رہی ہے کہ ہمارے ایوارڈز میں پہلی صف اور کثیر تعداد میں یہاں سے لوگ منتخب کئے جاتے ہیں؟ یا وہ لوگ جو پاکستان اور اسلام کی مشعل تھامے ہوئے ہیں ہم نے انہیں کتنا مضبوط کیا ہے؟

آپ سے سوال صرف اتنا ہے کہ درج بالا کیٹیگریز نے ملک اور قوم کے تشخص میں کیا اور کتنا تعمیری کردار ادا کیا؟ کونسی غیر معمولی کارکردگی دکھائی جس سے پاکستان کا نام روشن ہوا؟ میں کسی کیٹیگری کو یہ ایوارڈ دینے کے خلاف ہوں نہ ہی کوئی مولویانہ طرز سوچ کا مالک، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈرامہ و آرٹ کیٹیگری کے ایوارڈ جن کی بلا وجہ منظم انداز میں پبلسٹی کی گئی جبکہ ہم اس انڈسٹری کے توسط سے کم و بیش ٪2 مثبت کام کے علاؤہ اپنی نسل کو کیا دے سکے؟ کوئی میری رہنمائی ہی کردے کہ عدنان صدیقی، سجل علے، جگن کاظم کو جس عظیم کارنامے میں تمغۂ امتیاز دیا گیا اور مہوش حیات نے 2 سال قبل تمغۂ امتیاز حاصل کرکے قوم کی خدمت میں کتنا حصہ شامل کیا؟ کیا یہ مذاق نہیں کہ ایک چپل بنانے والے کو صدارتی ایوارڈ دے کر جگ ہنسائی کا موقع دیا گیا؟ مفلوک الحال کمیٹی کا اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ سال 2022ء میں مجیب الرحمٰن شامی جیسے نابلد صحافی کو پاکستان کے اہم ایوارڈ ہلالِ امتیاز سے نواز دیا گیا، کس اہم کارنامے پر؟ حالانکہ اسی کیٹیگری میں بہت اہم، بڑے اور معیاری ناموں کو منتخب کیا جاسکتا تھا۔ اس کے مقابلے میں چار بہترین سکالرز شخصیات کو اس نام نہاد صحافی سے نچلا درجہ یعنی ستارۂ امتیاز دیا گیا! کیا یہ ہے مملکت اسلامیہ؟کیا یہ ہیں اطوار جن کی کمی ہے؟ میرا سوال ہے کہ ہم سائنس، میڈیکل، ٹیکنالوجی، سپورٹس، انجنئیرنگ، ڈیجیٹل کمیونیکیشن کو کونسے درجے میں رکھتے ہیں اور ان کی خدمات کو کتنا سراہتے ہیں، جو حقیقی طور پر ملک کی ترقی اور قوم کی خدمت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں؟ اور ایسے باکمال لوگوں کی کتنی تشہیر کرتے ہیں؟

ایک انگریز مصنف جونتھن سوئفٹ کا قول ہے کہ "بصارت ان چیزوں کو دیکھنے کا فن ہے جو دوسروں سے پوشیدہ ہیں" آئیں آپ کو پاکستان ایک ایسے نوجوان سے ملاتا ہوں جو اپنی غیر معمولی کامیابیوں سے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کا نام قومی اور بین الاقوامی سطحی پلیٹ فارمز پر روشن کررہے ہیں، میری مراد صاحبزادہ سلطان احمد علی ہیں۔ انہیں سال 2020ء میں ایک بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی این ایس پی اے ڈی) نے دنیا اسلام کی ان 10 بااثر ترین شخصیات میں منتخب کرکے ایوارڈ سے نوازا، جن کے غیر معمولی اقدامات سے اقوام و معاشرے میں امن، محبت اور رواداری کو فروغ ملا ہے۔ سلطان احمد علی سلطان باھُو ؒ کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی نسبت سے بنائی جانے والی ایک تحریکی و نظریاتی جماعت کے سیکرٹری جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں شائع ہونے والے ایک مجلہ مرآۃ العارفین کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ ایک تحقیقی ادارے مسلم انسٹیٹیوٹ کے چئیرمن ہیں جہاں سے انگلش زبان میں ماہانہ ریسرچ جنرل شائع ہوتا ہے۔ اسی ادارے کے تحت اپریل 2019ء میں نیوزی لینڈ میں واقع کرائسٹ چرچ مسجد میں پیش آنے والے دلخراش واقعے کو، انسانی ماڈل سے مسجد بنا کر خراج تحسین پیش کیا گیا، جو پاکستان کی تاریخ میں اپنی طرز کا واحد کارنامہ ہے۔ مسجد کے اس انسانی ماڈل کو بیک وقت پاکستان اور عالمی میڈیا پر شہہ سرخیوں میں دیکھایا گیا۔ سلطان احمد علی اس وقت دیوان آف جونا گڑھ بھی ہیں، جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ وہ وائس پریزیڈنٹ ملی یکجہتی کونسل اور ممبر جنرل کونسل نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بھی ہیں جو اپنے منفرد انداز میں بانیان پاکستان کے نظریہ کو جلا بخشنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ قومی و بین الاقوامی سطح پر تمام ناگزیر موضوعات پر پاکستان کا مؤقف کھل کر اجاگر کرتے ہیں، پھر وہ مسئلہ فلسطین ہو، مسئلہ کشمیر ہو، اسلاموفوبیا ہو، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (یونیورسل ڈکلئیریشن آف ہیومین رائٹس) میں عالم انسانیت سے متعلق فیکٹ اینڈ فگر ہوں، مسلم امہ پر بالخصوص آذربائجان، ڈنمارک، میانمار، سیریا اور فرانس میں ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا اسلامی تعلیمات کے تقدس کی پامالی، انہوں نے ہر سطح پر ببانگ دہل آواز حق بلند کی، غرضیکہ ماحولیاتی تبدیلی ہو یا معیشت پر گہری نظر ہو وہ حکمت و دانائی کو اپنا رہنما بناتے نظر آتے ہیں۔ اس غیر معمولی نوجوان کو مجھ جیسا کم علم شاید بہت کم جان کر بھی ایک کتاب لکھ سکتا ہے مگر یہاں الفاظ کی قید مجھے اجازت نہیں دیتے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ انٹرنیشنل تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کی 10 منتخب شخصیات میں بھارت کے مفضل سیف الدین بھی تھے جن کی خدمات کے اعتراف میں انڈیا نے سال 2015ء اور 2018ء میں انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا چانسلر بنایا۔ یہی نہیں پاکستان نے انہی 2015ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی اور سال 2023ء میں پاکستان کے سب سے بڑے صدارتی سول ایوارڈ "نشان پاکستان" سے نوازا۔ پڑوسی ملک کے ایوارڈ سے متعلق جاری لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں سب سے بڑے ایوارڈ کیلئے جہاں سائنس، میڈیکل، ٹیکنالوجی، سپورٹس، اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کو رکھا جاتا ہے وہیں غیر مسلم ملک ہونے کے باوجود ایک کیٹیگری سپرچوئل (روحانیت) سے بھی منسوب ہے، جنہیں وہ ایوارڈ دیا جاتا ہے وہ اس کے حقدار ہیں یا نہیں یہ الگ موضوع ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھارت رتنا ہے جو صرف وزراء اعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت چند اہم سرکاری عہدے داروں کو دیا گیا، جبکہ صرف 6 ایوارڈز حکومتی اداروں سے باہر، لیکن انڈیا کے ہی نامور شخصیات کو جاری ہوئے۔ ہم نے اپنے اہم ترین ایوارڈ کس کس کو دئے؟ بات لمبی ہو جائے گی! بہرحال دوسرے نمبر پر سب سے اعلیٰ بھارتی ایوارڈ پدم وبھوشن ہے جو سال 2021ء میں مولانا وحید الدین خان کو دیا گیا اور اتر پردیش سے قلب صادق کو دوسرے اہم ایورڈ پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ بالکل اسی سال جب سلطان احمد علی کو (آئی این ایس پی اے ڈی) کی طرف سے دنیا کی بااثر شخصیت کا ایوارڈ ملا، کہاں تھا ہمارا کابینہ ڈویژن؟ ہمارے میڈیا کی زبوں حالی پر افسوس کہ اگر اس کی رسائی غیر سنجیدہ اور عامیانہ خیالات سے بالاتر ہوتی تو وہ ایک وژنری شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے۔ 

اس نوجوان کی کمال خوبیوں اور کامیابیوں کے بعد کیا مملکت خدا داد کو ایک عظیم سکالر نظر نہیں آیا؟ کیا پاکستان کے افسران بالا کو ایسا شخص نظر نہ آیا جو عالمی سطح پر تحقیق و ادب کے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ انفرادی طور پر ذاتی کاوشوں کے ساتھ ایک شخص انٹرنیشنل ریلیشنز اور پیس اینڈ کانفلیکٹس میں پاکستان کا تشخص اجاگر کرنے کیلئے گراں قدر خدمات پیش کر چکا ہے اور کر رہا ہے؟

اس تحریر کے ذریعے میرا مقصود افسران بالا، کابینہ ڈویژن، وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے علم میں ان پوشیدہ و اہم کیٹیگریز کو اجاگر کرنا اور باالخصوص ایک چمکتے ستارے کو ہائی لائٹ کرنا تھا تاکہ انہیں پاکستان کے اعلیٰ صدارتی سول ایوارڈ سے نوازا جائے بلکہ آئندہ سال جب کابینہ ڈویژن اعزازات اور سفارشات کیلئے وزارتوں کو نام بھیجنے سے متعلق خط لکھے تو یاداشت کے طور پر میرا کالم لف کرے۔ اگر یہ کالم مملکت کے کسی وزیر کی نظر سے گزرے تو کابینہ ڈویژن کو نام ارسال کرتے ہوئے فنکاروں، اداکاروں، رقاصاؤں، ڈرامہ، ناول نگاروں، اور غیر سنجیدہ اور عام شخصیات کو نامزد کرنے سے قبل اس نوجوان سلطان احمد علی کی کاوشوں، سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت و اختراع کرنے والے ہیروز، آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر گرفت اور انجنئیرنگ میں تخلیقی ذہن کے مالک نوجوانوں اور وہ کھیل جس میں پاکستان نے آج سے قبل کوئی خاص پوزیشن حاصل نہیں کی جیسا کہ آف روڈ موٹر سپورٹس، ایم ایم اے فائٹ، نیزہ بازی، فری فائٹ، مارشل آرٹس پر بھی گہری نظر رکھیں تاکہ ایسے ہیروز کے حوصلے مزید بلند ہوں اور وہ ملک پاکستان کیلئے مزید کامیابیاں سمیٹ سکیں۔ اگر یہ کالم آپ تک پہنچا اور آپ کے موبائل میں موجود رابطوں میں جتنے اہم حکومتی عہدے داران ہیں تو آپ ان تک میرے الفاظ پہنچانے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔