مسلم تہذیبی ورثہ، ایک طائرانہ جائزہ

اس کرۂ ارض پر موجود ہر ایک معاشرے کی اپنی الگ ثقافتی روایات، تہذیب و تمدن اور رہن سہن کا طرز انداز ہے- کسی بھی خطے،قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت اس کی تاریخی ترجمان ہوتی ہے- کوئی بھی معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی شناخت اور تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا کیونکہ اُس معاشرے کے افراد کا مستقبل اپنی قوم کے ثقافتی ورثے سے منسلک رہنے پر ہی جڑا ہوتا ہے-
ماضی کی روایات اور تہذیب و تمدن کی اپنی ایک الگ اہمیت ہوتی ہے جو کہ نئی آنے والی نسل کو اپنے آباء و اجداد کی تاریخی وراثت کی اہمیت یاد دلاتی ہیں- اسی لئے تاریخی ورثہ جو کہ اس قوم کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کی علامت تصور کیا جاتا ہے- اُس پر گزری تاریخ کے ورق ورق محفوظ کرنا اسی قوم کے ذوق کا آئینہ دار اور مستقبل کے خطوط واضح کرتا ہے-
اگر ہم تہذیب و ثقافت میں مختصراً فرق دیکھیں تو’’ثقافت‘‘کسی قوم، ملت یا قبیلہ کے مادی اوصاف پر مشتمل مجموعی طریقِ بود و باش، رسم و رواج اور باہم ربط و روش وغیرہ کو ظاہر کرتی ہے جبکہ ’’تہذیب‘‘ کسی معاشرے کی ماہیئت یا جوہر میں بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو عیاں کرتی ہے-
اسی طرح دنیا میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافتی روایات کا اپنا ایک الگ مقام ہے- مسلم ثقافت کی اپنی ایک الگ انفرادیت اور پہچان ہے کیونکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر اپنے نور کی روشنی سے منور کیا- دین اسلام نے ناصرف لوگوں کے دلوں کو اپنے نور سے منور کیا بلکہ ان کی ایک ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے ایثارو قربانی، محبت و اخوت اور باہمی ہم آہنگی جیسی اسلامی اقدار کا معاشرے میں فروغ بھی عام کیا جس کا اظہار پوری دنیا میں نمایاں ہے-
اسلامی فنون خصوصاً اسلامی فن تعمیرِ اسلامی تعلیمات سے پیوست ہے- اسلامی فن تعمیر میں بلند و بالا مساجد کی تعمیر،میناروں، وسیع صحنوں ،وضو و غسل خانوں اور گنبدوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ عربی خط کی نقاشی نمایاں ہے-
دین اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک دنیا کا کوئی ایسا کونا نہیں جہاں یہ دین نہ پہنچا ہو اس کے پیروکاروں نے اس دین کے نقوش وہاں نہ چھوڑے ہوں- افریقہ کے صحراؤں سے لے کر یورپ کے بلند و بالا پہاڑوں تک اور مشرقی ایشیاء سے لے کر خطہ عرب تک مسلم تہذیب و ثقافت آج بھی تر و تازہ ہے جو کہ ماضی کی اپنی ایک خوبصورت منظر کشی کرتی ہے-
اسلامی فنِ تعلیم اپنے خوبصورت دروازوں ، شاندار میناروں ، دلچسپ ڈیزائنوں اور متاثر کن خطاطی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے- جنوبی ایشیاء میں موجود پاکستان میں ایسے تہذیب و تمدن اور ثقافتی روایات کے حامل تاریخی مقامات موجود ہیں جو ہر کسی کا دل موہ لیتے ہیں-
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مہذب تہذیب کے آثار لگ بھگ 5 ہزار سال پرانے ہیں- پاکستان ایک ایسا خطۂ سر زمین ہے جو کہ کئی تہذیبوں کا تمدن رہا ہے- اس کی ثقافت کے خدوخال کو سنوارنے میں جہاں وارث شاہ، سلطان باھو، خواجہ غلام فرید، شاہ عبدالطیف،رحمان بابا، علامہ اقبال کا بہت کردار رہا ہے، وہیں پر جواجہ معین الدین چشتی، میر اور غالب کے افکار بھی اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ یونیسکو پاکستان کے چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرچکا ہے- [1]
ان اہم مقامات کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:
1-موئن جودڑو(Moenjodaro)
موئن جودڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’مردوں کا ٹیلہ‘‘ ہے- ہزاروں سال پرانی وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز موئن جودڑو جو کہ صوبۂ سندھ میں لاڑکانہ (Larkana) کے قریب واقع ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ شہر 2600 قبل مسیح میں موجود تھا- اس شہر کو ایک خاص ترتیب سے بنایا گیا تھا جس کی گلیاں کھلی اور سیدھی جبکہ پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا-
ایک اندازے کے مطابق یہاں 30 سے 40ہزار کے درمیان افراد مقیم تھے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شہر تقریباً 7 مرتبہ اجڑا اور دوبارہ بسایا گیا جس کی اہم ترین وجہ دریائے سندھ کا سیلاب تھا-
2- ٹیکسلا (Taxila)
پاکستان کے شہر راوالپنڈی کے قریب واقع ٹیکسلا جس کی بنیادیں گندھارا تہذیب سے جا ملتی ہیں دو اہم مذاہبِ ہندو اور بدھ مت کا مرکز رہا ہے- ٹیکسلا میں قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں- یہاں کے مقامات (Sites) کا تعلق 600 قبل مسیح اور 700 قبل مسیح تاریخ سے ہے-
326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا- یہاں گوتھک سٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے،10 ہزار سکے زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں-
3-تخت بائی (Takht-i-Bahi) کے بدھ آثار
پشاور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور پر موجود ضلع مردان میں واقع تخت بائی قدیم بدھ تہذیب کے عروج کے کھنڈرات پر مشتمل ایک یادگار ہے، جو کہ پہلی صدی قبل مسیح کے عہد سے ہے- اس مقام کو تخت قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جبکہ اس کے ساتھ ایک دریا بہتا تھا جس کی وجہ سے تخت کے ساتھ بہائی لگا دیا گیا-
یہاں موجود بدھ کمپلیکس چار اہم بدھ گروپس میں تقسیم تھا- پہلا اسٹوپا، دوسرا راہبوں کی خانقاہ، تیسرا مندر اور چوتھا تنتری راہبوں کی خانقاہ پر مشتمل تھا-
4- شاہی قلعہ اور شالامار باغ لاہور
)Fort and Shalamar Gardens in Lahore(
لاہور شہر کے شمال مغرب میں واقع شاہی قلعہ کی تاریخ زمانۂ قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والے مغلیہ فرمانرواؤں کے دور میں بھی اس کی تزئین و آرائش ہوتی رہی- لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے- قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں- شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے جو کہ اسلامی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے- اسی طرح شالامار باغ مغل بادشاہ جہانگیر نے تعمیر کرایا جسے جنوبی ایشیاء کا خوبصورت ترین باغ بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہاں فارسی و اسلامی روایات کا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے-
5- مکلی (Makli) قبرستان، ٹھٹہ (Thatta)
سندھ کے شہر ٹھٹہ کے قریب واقع مکلی کا قبرستان دنیا کا وسیع ترین قبرستان ہے- جہاں چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سترہویں ویں صدی عیسوی تک کے حکمران خاندانوں اور جنگجوؤں کی قبریں موجود ہیں- اس قبرستان میں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں- ان مقابر میں مغل سردار طغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، باقی بیگ ترخان، سلطان ابراہیم اور ترخان اوّل جیسی شخصیات محو خواب ہیں- ان قبور پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں- وہ قبریں جو کسی سردار یا کسی بزرگ کی ہیں ان پر خوبصورت مقبرے تعمیر ہیں-
6- قلعہ روہتاس( Fort Rohtas)
قلعہ روہتاس پنجاب کے ضلع جہلم سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو کہ مسلم فوجی فن ِتعمیر کا حیرت انگیز شاہکار ہے- شیر شاہ سوری نے پوٹھو ہار کے پتھریلے سطح مرتفع پر اس قلعہ کی تعمیر کا حکم 948ھ بمطابق 1541ء میں دیا اور یہ قلعہ 1548ءمیں 7سال کے مختصر عرصہ میں مکمل ہوا- یہ قلعہ 12 دروازوں پر مشتمل ہے جس کی تعمیر فوجی حکمت عملی کے پیش نظر کی گئی تھی-
اس کے علاؤہ پوری دنیا میں اسلامی تہذیب وتمدن کے آثار آج بھی موجود ہیں جو کہ مسلم دور حکومت میں مسلم حکمرانوں کا طرزِ تعمیر میں لگاؤ اور قابلیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے-
اسی طرح وسطی ایشیائی ممالک کی طرف رخ کریں تو اس خطہ کو بڑی ثقافتی حیثیت حاصل ہے اور اس خطہ کو مسلم دنیا میں بڑی اہمیت حاصل رہی اس کا مسلم تاریخ اور ثقافت کے فروغ میں بڑا کردار ہے- اس کے ورثہ میں صوفیانہ رنگ بہت واضح ہے- اس خطے میں آج بھی بڑی بڑی خانقاہیں موجود ہیں جو کہ ایک اہم مسلم ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں-
اس علاقے کے اہم ثقافتی مقامات کا ذکر درج ذیل ہے: [2]
1- قدیم حلب( Ancient City of Aleppo)
قدیم حلب مشرق وسطی میں واقع شام کا 5 ہزار سالہ قدیم اور مہذب شہر جو کہ قدیم زمانے میں ایک بہت بڑا تجارتی مرکز تھا- یہ قدیم شہر کئی سلطنتوں مثلاً بازنطینی، سلجوق اور خلافتِ عثمانیہ کا حصہ رہا ہے- شام میں جاری خانہ جنگی میں انتہاء پسندوں کے حملوں کی بدولت یہ شہر اب ویران اور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے- بالخصوص مشہور مدینہ سوق حلب میں واقع 14ویں صدی کا ایک خوبصورت بازار پتھر سے بنی گلیوں کا ایک نیٹ ورک تھا جو اب کھنڈر بن چکا ہے-
2013ء میں یونیسکو (UNESCO) نے اسے خطرہ سے دوچار مقام قرار دیا ہے-
2- مینار جام (Minerat Jam)
افغانستان کا خطہ تاریخی حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے جہاں پر تہذیب و ثقافت کے کئی آثار موجود ہیں- مینار جام جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے مقامات میں شامل ہے مغربی افغانستان کے صوبہ غور میں ضلع شاہ راک میں دریائے ہری کے کنارے پر واقع ہےجو کہ سن 1190ء میں تعمیر کیا گیا تھا- مینار کی لمبائی تقریباً 62 میٹر ہے- اس کو تقریباً 1190 پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے- مینار جام پر بڑی خوبصورتی سے سورۃ مریم کی آیات کنندہ کی گئی ہیں-
جام مینار چونکہ بارہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا- تاریخی وارثے کی ناقص دیکھ بھال کے باعث یہ زبوں حالی کا شکار ہو چکا ہے اور لسٹ آف ورلڈ ہیری ٹیج ان ڈینجر میں اس کا نام بھی شامل کیا جاچکا ہے-
3- قطب مینار ( Qutb Minar)
اور قوت اسلام مسجد
قوت اسلام مسجد ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی عظیم مسجد تھی اور اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا جبکہ قطب مینار کی تعمیر کا آغاز قطب الدین ایبک کی زیرِ سرپرستی 1199ء میں ہوا تھا- مسجدقوت الاسلام اور قطب مینار پر خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں-
قطب مینار کی اونچائی 72. 5 میٹر ہے-یہ سرخ اور بھورے رنگ کے بلوا پتھروں سے بنا ہے- جنوبی دہلی کے تاریخی قطب مینار کے احاطے میں واقع قوت الاسلام مسجد آج کل اپنی بد حالی پر خون کے آنسوں بہا رہی ہے- اس مسجد کو تقریباً نیست و نابود کر دیا گیا ہے-
مسجد کی موجودہ صورت حال کھنڈر جیسی ہی ہے- حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ میں ایک نظم ’’قوت اسلام مسجد‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے جو پیش خدمت ہے:
ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی |
4- بابری مسجد (Babari Mosque)
بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے اسلامی مغلیہ فن تعمیر کی طرز پر 16 ویں صدی میں ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کرائی- یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی- اس مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کئے گئے- بابری مسجد کو1992ء میں انتہاء پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا-
بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرایا گیا [4]
5- مسجد اقصیٰ ( یروشلم)
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول جو کہ یروشلم میں واقع ہے- خانہ کعبہ اور مسجد نبوی(ﷺ)کے بعد مقدس ترین مقام ہے-خلافت راشدہ کے وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ()نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کروانے کے علاوہ اس کی تزئین و آرائش کی-
1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا- قبۃ الصخرہ مسجد اقصی کے قریب موجود ایک تاریخی چٹان کے اوپر سنہری گنبد کا نام ہے- عربی میں قبۃ کا مطلب گنبد اور الصخرۃ کا مطلب چٹان ہے-
6-بورصہ (Bursa)
بورصہ (Bursa) شمال مغربی ترکی کا شہر اور صوبہ بورصہ کا دار الحکومت ہے- یہ شہر اپنی برفانی تفریح گاہوں، عثمانی سلطانوں کے مزارات اور زرخیز میدانوں کے باعث بھی مشہور ہے- 1326ء میں یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت بنا اور 1365ء میں ادرنہ کی فتح تک اسے یہ اعزاز حاصل رہا- اولین عثمانی طرز تعمیر کی ایک شاہکار 'جامع مسجد اولو' ترکی کے شہر بروصہ میں واقع ایک قدیم مسجد ہے جسے عثمانی طرز تعمیر کا اولین شاہکار سمجھا جاتا ہے- یہ مسجد سلطان بایزید اول کے حکم پر علی نجار نے 1396ء سے 1399ء کے درمیان قائم کی- مستطیل شکل میں بنی اس مسجد پر 20 گنبد ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان بایزید نے جنگ نکوپولس میں فتح کی صورت میں 20 مساجد تعمیر کرنے کا عہد کیا تھا اور بعد ازاں انہی 20 مساجد کی جگہ بروصہ میں (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا دار الحکومت تھا) 20 گنبدوں والی یہ مسجد تعمیر کی گئی- اس کے دو مینار بھی ہیں- مسجد کے اندر معروف خطاطوں کے 192 شاندار فن پارے رکھے گئے جو فن خطاطی کے عظيم نمونوں میں شمار ہوتے ہیں-
7- مسجد سلطان احمد
(Sultan Ahmed Mosque)
مسجد سلطان احمد ترکی کے شہر استنبول میں واقع خلافت عثمانیہ کی فن تعمیر کا سب سے شاہکار تصور کیا جاتا ہے- بیرونی دیواروں کی وجہ سے اس مسجد کو نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے-
اس مسجد 1609ء تا 1616ء سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان احمد اول کے دور میں مکمل ہوئی-مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے- مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اس کے علاؤہ مسجد میں 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں- مسجد کے اندر اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے قرآن مجید کی آیات کی خطاطی کی اور یہ خطاطی اسلامی فنِ خطاطی کو ظاہر کرتی ہے-
بالکل اسی طرح اگر ہم چائنہ میں دیکھیں تو ہمیں عظیم صوفیاء کرام کی خانقاہوں کی صورت میں مسلم ثقافتی ورثہ آج بھی دکھائی دیتا ہے-
مثلاً گانسو صوبہ کے مقام لنشیا میں درگاہ ڈاگانگ بے، صوبہ سچو آن کے مقام لانگ جونگ(Langzhong) میں درگاہ جی یو جاؤ ٹنگ اور صوبہ شان شی کے مقام شی شیانگ کی درگاہ یو جیو ٹنگ کو قادریہ طریقہ کے چین میں تین مقدس ترین مقام تصور کیا جاتا ہے-[5]
براعظم یورپ میں کئی سو ایسے مقامات موجود ہیں جہاں مسلم تہذیب و تمدن کی منظر کشی آج بھی موجود ہے- مثلاً اسپین میں موجود قرطبہ (Cordoba) میں مسجد قرطبہ، غرناطہ (Granada) میں محل الحمرا، مالقہ (Malaga)، سرقسطہ (Zaragoza)، اشبیلیہ (Seville) اور جیان (Jaen) کے مقامات موجود ہیں-
1- مسجد قرطبہ (Cordoba Mosque)
اسپین کے شہر اندلس میں مسجد قرطبہ مسلم فن تعمیر کا ایک اعلی شاہکار ہے جو اس مسجد کی صورت میں عظمتِ رفتہ کے نشانات باقی ہیں- سونے اور چاندی کے پانی سے نقش نگاری کی صنعت آج بھی قرطبہ میں زندہ ہے-
امیر عبد الرحمن اول (756-788) نے اس مسجد کی بنیاد رکھی- مسجد میں منبر و مینار کو ایک خاص قسم کے سنگ مر مر سے تیار کیا گیا ہے- اس کے علاؤہ مسجد میں اعلیٰ قسم کے ستون اور دروازے بنائے گئے-
مسجد قرطبہ کے مشہور ستونوں، محرابوں اور گنبدوں کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علامہ اقبال ’’بال جبریل‘‘ کی اپنی مشہور نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
تیری بناء پائدار، تیرے ستوں بے شمار |
آج بھی اس کے قدیم حصے میں واقع دروازوں ، تنگ اور پر پیچ گلیوں ‘ برجوں اور فصیل کے باقی ماندہ حصوں کی صورت میں قرطبہ کی عظمتِ رفتہ کے نشانات باقی ہیں-
2- الحمرا (Alhambra)
الحمرا غرناطہ (Granada) سپین میں پہاڑی پر واقع ایک عظیم محل ہے جس کی بنیاد 1213ء میں خلافتِ عثمانی کے سلطان الثانی سلطان محمد فاتح نے رکھی یوسف اول نے 1345ء میں اس کو عربی طرز کے نقش و نگار سے مزین کیا- الحمرا کا محل سرخ پتھر سے بنایا گیا ہے- اس لیے اس کا نام الحمرا ہے-
دراصل دنیا بھر میں موجود مسلم ثقافتی ورثہ ناصرف اسلاف کی ماضی کی عظیم روایات کی منظر کشی کرتا ہے بلکہ امید کی ایک کرن بھی دکھاتا ہے- اپنے اسلاف کا یہ عظیم ورثہ آج پوری امت مسلمہ کو پھر اپنی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے کیونکہ بد قسمتی سے پوری دنیا میں جاری مفادات کی خاطر لڑائی میں جہاں سسکتی ہوئی انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے وہیں آج گولا بارود اور فضائی بمباری کی وجہ سے تاریخی وراثت اور روایات کی حامل عمارات کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے-
اسلامی ثقافتی ورثہ کو لاحق خطرات:
اسلامی ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو اس وقت شدید مسائل کا سامنا درپیش ہے- چند ایک مسائل کو تذکرہ مندرجہ ذیل ہے- مثلاً
1- انتہاء پسندی
افریقی ملک مالی (Mali) کا شہر ٹمبکٹُو قصے کہانیوں کا ایک تمدنی شہر کہلاتا ہے لیکن اِس کو بھی انتہاء پسندوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑا- یہ شہر 333 صوفیا کا مَسکن کہلاتا ہے لیکن ان تمام کو تباہ کرنے کی انتہاء پسندوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی- تباہی و بربادی کے اِس عمل میں انتہاء پسندوں نے کم از کم 15 مزارات کو شدید نقصان پہنچایا- اِس شہر کے کتب خانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا- ٹمبکٹو کا شہر پندرہویں اور سولہویں صدی میں سماجی، علمی، روحانی اور اقتصادی مرکز تھا- یہ شہر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے- [6]
2- نسل پرستی اور مذہبی فسادات
تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک برتا گیا جس کا اثر موجود مسلمانوں کے ثقافتی ورثہ پر بھی پڑا اور اسے شدید نقصان پہنچایا گیا- مثلا ًگجرات میں سن 1969ء میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کیلیے قائم کردہ جسٹس جگن موہن ریڈی کمیشن نے کہا تھا کہ فسادات میں مساجد، قبرستانوں، درگاہوں سمیت مسلمانوں کے تقریبا 100 مذہبی مقامات کو تباہ کیا گیا تھا- سن 1980ء اور 1992ء کے فسادات کے دوران بھی یہ کاروائیاں ہوئیں اور سن 2002ء فسادات کے دوران یہ سب سے زیادہ نظر آیا جب مسلمانوں سے منسلک 500 سے زائد مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا انہیں تباہ کیا گيا- [7]
3- خانہ جنگی
مشرق وسطی جو اسلامی تہذیب اور ثقافتی روایات کا امین خطہ ہے وہاں پر بڑی طاقتوں کی اپنے مفادات کی خاطر کافی عرصے سے یہ خطہ جنگ کا شکار ہے مثلاً شام میں ہزاروں تاریخی عمارتیں موجود ہیں لیکن وہاں جاری جنگ میں یہ ثقافتی ورثہ لوٹ مار اور تباہی کا شکار ہو چکا ہے-
اقوامِ متحدہ کے گزشتہ برس خبردار کیا تھا شام میں تقریباً 300 اہم اور تاریخی مقامات کو یا تو تباہ کیا جا چکا ہے یا انہیں بمباری سے نقصان پہنچا ہے اور یا پھر انہیں لوٹ لیا گیا ہے- اقوام متحدہ نے سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر کے بعد یہ انتباہ جاری کیا تھا- شامی شہر حمص میں صلاح الدین ایوبی کے دور کے قلعے کا ایک حصہ بھی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے جبکہ حلب کے تاریخی بازار کے کچھ حصوں کو بھی بارود نے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے-
شام میں اگر شمال کی طرف جائیں تو آٹھویں صدی میں تعمیر کی گئی حلب کی تاریخی مسجد بھی جنگ کی زد میں آ چکی ہے-[8]
4- دہشت گردی
مشرق ِ وسطی ٰ میں موجود دیگر ممالک کی طرح یہ جنگ عراق میں بھی پھیل چکی ہے اور عراق میں بھی جنگ کے دوران درجنوں مذہبی مقامات اور مزاروں کو تباہ کیا گیا ہے- [9]
چند اہم سفارشات:
مختلف ممالک میں ثقافتی ورثہ کی تباہی کی وجہ خانہ جنگی اور انتہاء پسندی ہے۔ اقوام متحدہ ان ممالک میں جنگ بندی کروا کے ثقافتی ورثہ کو تباہی سے بچانے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے- جو اہم ثقافتی و تہذیبی مقامات جنگ کے دوران تباہ ہو گئے ہیں اسی طرز پر تعمیر کرکے ان مقامات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے-
بہت سے ممالک میں اہم ثقافتی مقامات کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار بن رہے ہیں ان مقامات کی خصوصی دیکھ بھال سے ان کی محافظت کی جا سکتی ہے- کچھ ممالک میں مذہبی انتہاء پسندی کی بدولت مسلم تہذیبی و ثقافتی مقامات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ان ممالک کے لئے لازمی ہے کہ مذہبی رواداری کو قائم کر کے ایسے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے-
٭٭٭
[1] https://whc.unesco.org/en/statesparties/pk
[2]https://whc.unesco.org/en/list/
[3](ضرب کلیم)
[4]https://www.bbc.com/urdu/regional-42250050
[5]https://www.mirrat.com/article/21/336
[6]https://m.dw.com/ur/
[7](8)https://www.bbc.com/urdu/regional-46245388
[8]https://www.dw.com/ur/
[9]https://www.dw.com/ur/