کروڑ لعل عیسن

image

کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ کی 3 تحصیلوں میں سے ایک ہے، کروڑ لعل عیسن کا پرانا نام دیپال گڑھ تھا، حضرت لعل عیسن رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے دور کے بہت بڑے ولی کامل اور عاشق رسول ﷺ تھے۔

دی ویووز نیٹ ورک: تحصیل کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ کی 3 تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔ کروڑ لعل عیسن کا پرانا نام دیپال گڑھ اور بعض روایات کے مطابق دیوپال (دیپالپور) ہے۔ دیوپال ایک ہندو راجا تھا، یہ علاقہ اس کے زیرِ تسلط تھا اور اسی نے یہاں اپنی راجداہنی کی مضبوطی کیلئے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا اور اسی قلعہ کا نام دیپال گڑھ تھا لیکن جب 1004ء میں سلطان محمود غزنوی نے حملہ کر کے دیپال گڑھ کو فتح کر لیا۔ اسی موقع پر خوارزم سے آۓ ایک بزرگ حضرت سلطان حسین قریشی الخوارزمی کروڑی رحمۃ اللّٰہ علیہ محمود غزنوی کے ساتھ تھے۔ 

محمود غزنوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حضرت سلطان حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ سے درخواست کہ وہ اس قلعہ میں رہ کر سکون سے اللہ کی عبادت کریں۔ سلطان حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ درخواست قبول کر لی اور قلعہ دیپال گڑھ میں ایک مسجد تعمیر کرواٸی اور قلعہ دیپال گڑھ کا نام کوٹ کروڑ رکھ دیا اور اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کر دی، لاتعداد ہندو آپ کے ہاتھوں مسلمان ہوۓ۔ یاد رہے کہ مشہورِ زمانہ بزرگ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی اسی قریش خاندان سے ہیں، آپ کا سنہ ولادت 566 ہجری اور جائے ولادت کوٹ کروڑ ہے۔ خاندان قریش کے غوری اور خلجی حکمرانوں کی حکومت کے دوران کوٹ کروڑ کی صوبائی حیثیت بحال رہی لیکن چنگیزی حملوں کے دوران یہ قلعہ ویران ہوگیا اور اس کی صوبائی حیثیت ختم ہو گئی، بعد میں جب سلطان حسین لنگاہ کا زمانہ آیا تو اس نے کوٹ کروڑ کو صوبائی حیثیت دے کر اپنے بھائی کو صوبیدار بنایا لیکن بھائی نے اپنی خودمختاری قاٸم کر لی جسے سلطان حسین لنگاہ نے ختم کر کے بھاٸی کو گرفتار کر لیا اور یہ علاقہ بلوچ سرداروں کو دے دیا۔ 

بعد ازاں کروڑ عیسن سہراب خان کی جاگیر میں چلا گیا۔ اسی دریائے سندھ کے مغرب میں فتح خان اور اسماعیل خان کی حکومتی جاگیر تھی جبکہ علاقہ تھل بابر کی جاگیر میں شامل تھا لیکن بابر بن سہراب علاقہ چھوڑ کر ملتان چلا گیا، اس جاگیر پر قبضہ کرنے کیلئے غازی خان اور اسماعیل خان کے درمیان لڑاٸی ہوٸی اور کوٹ کروڑ 2 حصوں میں بٹ گیا۔ وقت گزرتا گیا کروڑ لعل عیسن کی تاریخ کا ایک اہم باب غازی چہارم ہے جس کا زمانہ حکومت 1590ء تا 1614ء عیسوی ہے۔ غازی خان بھی حضرت لعل عیسن سے بہت عقیدت رکھتا تھا، اس کے دور حکومت سے پہلے حضرت شیخ محمد یوسف المعروف لعل عیسن رحمۃ اللّٰہ علیہ 1545ء میں کوٹ کروڑ تشریف لائے۔ حضرت لعل عیسن اپنے دور کے بہت بڑے ولی کامل اور عاشق رسول ﷺ تھے، ان ہی کی روحانی تربیت اور دین کی تبلیغ و محبت کی وجہ سے کوٹ کروڑ کی شہرت دور دور تک تھی اور کوٹ کروڑ آپ کے نام کی مناسبت سے کروڑ لعل عیسن مشہور ہوا۔ روایت کے مطابق آپ نے دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہو کر ایک کروڑ مرتبہ سورہ مزمل کا وظیفہ کیا جس کی مناسبت سے کوٹ کروڑ کا نام لعل عیسن مشہور ہوا۔

دوسری روایت یہ ہے کہ آپ کا خاندان خوارزم میں کروڑی مشہور تھا، اس لئے کروڑ لعل عیسن کا نام مشہور ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق حضرت شاہ عیسٰی بلوٹ کی حضرت شیخ محمد یوسف رحمۃ اللّٰہ علیہ سے محبت کی وجہ سے حضرت شیخ محمد یوسف رحمۃ اللّٰہ علیہ کو لعل عیسٰی کہا جاتا تھا، اسی وجہ سے نام لعل عیسن پڑا، کہتے ہیں جس سال حضرت شیخ محمد یوسف کوٹ کروڑ تشریف لاۓ، اسی سال بدترین سیلاب آیا اور دریائے سندھ یہاں موجود قلعہ کو اپنے ساتھ بہا لے گیا، اس میں موجود حضرت لعل عیسنؒ کے آباٶ اجداد کی قبریں بشمول حضرت حسین کروڑی الخوارزمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی قبر بھی بہہ گٸی لیکن بعد میں وہ تابوت نکلوا کر موجودہ دربار کروڑ لعل عیسنؒ کے احاطہ میں دفن کیے گئے جنہیں پنج پیر کہا جاتا ہے۔ حضرت لعل عیسنؒ کا دربار آج بھی اس شہر کی زینت ہے، آج لاکھوں کی تعداد میں ان کے عقیدت مند ان کے دربار پر حاضری دیتے ہیں۔ یہاں ایک مشہور دربار حضرت راجن شاہؒ کا بھی ہے۔ وہ بھی بڑی اعلیٰ درجے کی ہستی اور ولئ کامل تھے، ان کے علاوہ بھی یہاں بہت سی ہستیاں جن کے دربار موجود ہیں۔ 

پاکستان بننے سے پہلے دیگر شہروں کو ملاتی ریلوۓ لاٸن یہاں سے گزاری گٸی اور ایک چھوٹا ریلوے اسٹیشن بھی قاٸم کیا گیا۔ آج یہ شہر ایک بڑا اور پررونق شہر ہے اور ضلع لیہ کی تحصیلوں میں سب سے مشہور ہے، اس کی 14 یونین کونسلز ہیں اور آبادی 2017ء کی مردم شماری میں 5 لاکھ 97 ہزار سے اوپر تھی جس میں اضافہ ہوا ہے۔ دریائے سندھ جو اس زمانے سے لے کر 20ویں صدی کے تقریباً آخر تک مشہور 7ویں عشرے تک کروڑ شہر کی مغربی حدود سے ٹکرا کر گزرتا تھا، جو آہستہ آہستہ اب کروڑ لعل عیسن کے مغرب کی جانب تقریباً 10 کلو میٹر دور چلا گیا ہے جس کی گزر گاہ کے آثار اب بھی شہر کے مغربی کنارے پر بڑے نمایاں طور پر موجود ہیں۔ اب یہ شہر زندگی کی رونقیں لئے کھڑا ہے، یہاں بھی ضروریات زندگی کی سہولیات میسر ہیں، تعلیم و صحت کی مناسب سہولتیں موجود ہیں، یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔