کبیر والا

image

کبیروالا پاکستان کا 118واں بڑا شہر اور ضلع خانیوال کی سب سے بڑی تحصیل، 550 سال پہلے روحانی شخصیت سید احمد کبیر بخاریؒ نے اس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا، برصغیر پاک و ہند کی عظیم ترین ہستی حضرت سلطان باہوؒ کا یہاں آنا جانا رہتا تھا، وہ اکثر سردار پور کبیروالا سرائے سدھو آتے جاتے تھے اور تبلیغِ اسلام کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ 

خانیوال: (کلچرل ڈیسک) کبیر والا کی تاریخ قبل مسیح کی ہے۔ کبیر والا کی تاریخ ملتان سے ملتی ہے کیونکہ یہ شہر بھی تب آباد تھا جب ملتان میں گندھارا تہذیب اپنے عروج پہ تھی۔ اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کے اس شہر کی تاریخ بھی اڑھاٸی ہزار سال پرانی ہے کیونکہ یہ شہر اس وقت ملتان کا حصہ تھا۔ 550 سال پہلے اوچ شریف میں سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیت سید احمد کبیر بخاریؒ نے اس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا تو اسی نسبت سے اس بستی کا نام کبیر والا پڑا جو آج ایک مکمل شہر ہے لیکن نسبت روحانی ہے۔ 1396ء میں امیر تیمور کا پوتا پنجاب پر حملہ آور ہوا تو وہ وہاں سے ہوتا ہوا کشتیوں کے ذریعے دریا عبور کر کے تلمبہ پہنچا جہاں اس نے ہندو فوج کا مقابلہ کیا، پھر جب وہ ملتان کی طرف بڑھا تو کبیروالا میں اس نے قیام کیا۔ 

1817ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نواب آف ملتان نواب مظفر خان پر فتح حاصل کرنے کیلئے دیوان بھوانی داس کی کمانڈ میں فوجی دستہ روانہ کیا، جب وہ دریائے چناب عبور کر کے ملتان پہنچا تو اس نے دیوان مظفر خان سے جنگ کی بجائے خفیہ معاہدہ کر لیا جس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نئی حکمت عملی تیار کی اور بڑی تعداد میں سکھ فوج نے کبیروالا میں پڑاؤ ڈال لیا اور مہاراجہ کو تمام ڈاک اسی مقام سے روانہ کی جاتی تھی۔ 1818ء میں نواب مظفر خان اور ان کے بیٹے بھی رنجیت سنگھ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوۓ۔ 1937ء میں برطانوی دورِ حکومت میں سرائے سدھو میں موجود تحصیل ہیڈ کوارٹر کو کبیروالا منتقل کر دیا گیا۔ شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور سردارپور کے موضع للیرہ کے مقام پر دریائے راوی اور دریائے چناب کا سنگم واقع ہے۔ ہیڈ سدھنائی سے نکلنے والی سدھنائی کینال کبیروالا کے شمالی اور مغربی حصے کو سیراب کرتی ہے۔

کبیروالا پاکستان کا 118واں بڑا شہر اور ضلع خانیوال کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔ یہ شہر خانیوال سے شمال کی طرف جاتے ہوئے ملتان جھنگ روڈ پر واقع ہے، اس کا کل رقبہ 3 لاکھ 85 ہزار 855 ایکڑ ہے۔ 1998ء کی مردم شماری میں کبیروالا کی آبادی 6 لاکھ 84 ہزار تھی جو اب بڑھ کر شاید 10 تک لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ 1947ء میں پنجابی بولنے والے بہت سے خاندان ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے اور اب پنجابی لب و لہجہ بھی یہاں کی مقامی زبان میں رچ بس گیا ہے۔ کبیروالا اور اس کے گردونواح میں مسلمان صوفیائے کرام کی تبلیغِ اسلام سے یہ پورا علاقہ مسلم آبادی کا مرکز بن گیا، یہاں بابا سید احمد کبیر بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علاوہ حضرت خالد ولید آف موضع خطی چور اور حضرت بابا عبدالحکیمؒ سمیت مختلف روحانی ہستیوں کے مزارات اور روحانی مراکز ہیں۔ 

عظیم ہستی حضرت سلطان باہوؒ کا یہاں آنا جانا رہتا تھا وہ اکثر سردارپور کبیروالا سرائے سدھو آتے جاتے تھے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل کبیروالا کے علاقے سرائے سدھو، رام چونترہ، لکشمن چونترہ اور سردارپور ہندوؤں کا مرکز رہے ہیں۔ دریائے راوی اور چناب کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ان کے نہ صرف شمشان گھاٹ تھے بلکہ اشنان کی جگہیں بھی مقرر تھیں۔ کبیروالا سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ مخدوم پور میں سکھوں کا پاٹ شاہی گردوارہ بھی مشہور مقام ہے۔ کبیروالا تاریخی و ثقافتی حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔

کبیر والا محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے راجا داہر کے زیرِ تسلط رہا، 1005ء سے یہ زرعی منڈی رہی ہے۔ یہاں کمبوہ، بھٹی، سید، بلوچ، وینس، وڑائچ، جوئیہ، راجپوت، مرزا، ساہو، ملک، بھٹہ، سیال، سکھیرا، تھہیم، جٹ، ارائیں وغیرہ ذاتیں آباد ہیں۔ تحصیل سے قدرتی گیس کے ذخائر بھی ملے ہیں۔ اس علاقے میں فلور و ٹیکسٹائل ملز، فروٹ فارمز، پولٹری فارمز، کاٹن فیکٹریز، آئل اور پیپر ملز بھی ہیں۔ قارئین کرام یہ شہر تاریخی، ثقافتی اور روحانی اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتا مگر ہمیشہ کی طرح سیاسی نمائندوں کی بےحسی نے اس شہر کو بھی پسماندگی کی جانب دھکیل دیا ہے۔