پاکستان کی تقریباً سوا سو سال پرانی لائبریری
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری ملک کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری، 1890ء میں سردار پور جھنڈیر کے ایک زمیندار ملک غلام محمد کی کتابوں سے اس کا آغاز ہوا، مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میلسی سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پور جھنڈیر میں واقع ہے۔
وہاڑی: (کلچرل ڈیسک) مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میلسی سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پور جھنڈیر میں واقع ہے۔ یہ لائبریری تقریباً سوا سو سال پرانی ہے۔ 1890ء میں سردار پور جھنڈیر کے ایک زمیندار ملک غلام محمد کی کتابوں سے اس کا آغاز ہوا۔ 1936ء تک انھوں نے ہزاروں کتابیں جمع کر لیں۔ ملک غلام محمد کی وفات کے بعد کتابیں وراثت میں اُنکے نواسے میاں مسعود احمد جھنڈیر کو ملیں، ملک غلام محمد کے نواسوں مسعود احمد اور ان کے بھائی میاں محمود احمد نے ملک غلام محمد سے محبت کا حق یوں ادا کیا کہ اس کتب خانے کو مسعود احمد ریسرچ سینٹر کا نام دے دیا اور پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بنا دیا۔ ملک غلام محمد چوغطہ (1865ء سے میلسی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، کتابوں سے ان کی محبت والہانہ تھی۔
لائبریری پانچ ایکڑ کے خوبصورت پارک میں گھری ہوئی ہے۔ جس میں خوبصورت آبشاریں، فوارے، خوبصورت آرائشی اور زیبائشی پودے یہاں آنے والوں کو ایک انتہائی دلکش ماحول مہیا کرتے ہیں۔ لائبریری کا نیا کمپلیکس سال 2007ء میں مکمل ہوا جو 21 ہزار مربع فٹ ایریا پر محیط ہے۔ لائبریری میں آٹھ کشادہ ہال، آڈیٹوریم، ملٹی میڈیا ورک سٹیشن، کمیٹی روم اور ہاسٹل شامل ہے۔ لائبریری میں کل دس ملازم کام کر رہے ہیں۔ جن میں لائبریرین، نائب قاصد، مالی شامل ہیں۔
مسعود احمد ریسرچ سنٹر کی بڑی سعادت یہ بھی ہے کہ قرآنِ پاک کے گیارہ سو تینتیس قلمی نسخے بھی سنٹر میں محفوظ ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی اس لائبریری کو نہ کسی بین الاقوامی ادارے کی سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی کسی طرح کے سرکاری فنڈز ملتے ہیں۔ صدارتی تمغۂ امتیاز یافتہ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری ہے۔ لائبریری میں اس وقت دو لاکھ 35 ہزار کتب، ایک لاکھ 25 ہزار رسائل اور چار ہزار 50 مخطوطات موجود ہیں۔ ان میں نوے فیصد کتابیں خریدی گئی ہیں جبکہ دس فیصد کتابیں مختلف لوگوں کی طرف سے تحائف کی صورت میں دی گئی ہیں۔ 'مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد نے ایک پی ایچ ڈی سکالر کو اس لائبریری کی کیٹلاگ تیار کرنے کا فریضہ سونپا جنھوں نے دس ماہ لائبریری میں کام کر کے یہ کام مکمل کیا، جسے حکومت ایران نے اس فہرست کو کتابی شکل میں 2005ء میں شائع کیا۔
سال 1980ء کے بعد ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کے محققین کو لائبریری سے مستفید ہونے کی سہولت دی گئی۔ جس کے بعد محققین مشرقی اور انگریزی زبانوں میں استفادہ کر رہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں ملکی و غیر ملکی دانشور، سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ ادبی و دیگر نامور شخصیات اس لائبریری کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔ 'لائبریری انتظامیہ کے مطابق دسمبر 2013ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی انٹرنیشل لائبریری کانفرنس میں لائبریری پر ایک پی ایچ ڈی سکالر نے انگریزی زبان میں ایک مقالہ جس کا عنوان مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری تھا، پاکستان کیلئے سرمایہ افتخار پیش کیا۔ 14 اگست 2014ء کے موقع پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے لائبریری کے منتظم میاں غلام احمد جھنڈیر کو قومی ورثہ کی حامل تاریخی، دینی، ثقافتی اور ادبی کتابوں کو جمع اور محفوظ کرنے پر سول صدارتی تمغہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔