صوبہ بلوچستان قدرت کا حسین شاہکار

image

پاکستان کی حسین سر زمین کا 43.6 فیصد حصہ اِس کے سب سے بڑے صوبے، صوبہ بلوچستان پر مشتمل ہے جو پاکستان کے جنوب مغرب میں وقوع پذیر ہے-

3 لاکھ 47 ہزار 190 مربع میل[1] تک پھیلا ہوا بلوچستان کا صوبہ، قدرت کے ایسے گونا گوں مناظر اپنے اندر سمائے ہوئے ہے کہ انہیں دیکھ کر انسان آنکھیں جھپکانا بھول جاتا ہے- یہ صوبہ 6 ڈویژن پر مبنی ہے جس میں کُل 33 اضلاع ہیں جبکہ کوئٹہ اس صوبہ کا دارالحکومت ہے- اس کی زمین ایک وسیع سطح مرتفع یعنی پہاڑی علاقہ ہے جو چار حصوں (اونچے علاقے، نیم اونچے علاقے، صحرائی علاقے اور میدانی علاقے) میں منقسم ہے جبکہ پاکستان کی 760 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں آتی ہے-

[2] اس کے شمال مشرق میں پنجاب اور خیبرپختوں خواہ، مشرق اور جنوبی مشرق میں سندھ، جنوب میں بحیرۂ عرب، مغرب میں ایران اور شمال مغرب میں افغانستان لگتا ہے- یہ محل وقوع خطے میں اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے-[3] بلوچوں کی سرزمین سے منسوب یہ صوبہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا محبوب ترین صوبہ تھا اور قائداعظم کی اس صوبہ سے بے پناہ محبت کی ایک وجہ اس خطے کو قدرت کا عطاکردہ حسن بھی تھا-مزید یہ کہ اس خطے کا پاکستان سے الحاق محض اتفاق نہیں تھا، خان آف قلات کے پوتے پرنس عمر صاحب نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ان کے دادا خان آف قلات کو خواب میں حضور نبی کریم () کی جانب سے یہ اشارہ ملا تھا کہ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے-

[4] بلوچستان کی خوبصورتی فقط پہاڑ دریا اور جھیلیں وغیرہ ہی نہیں ہیں بلکہ یہاں کے باشندے بھی ہیں جن کی محبت اور دلی لگاؤ کے خود قائداعظم محمد علی جناحؒ معترف تھے- قائداعظم نے بلوچوں کے متعلق فرما یا تھا:

’’بلوچستان بہادر اور حریت پسند لوگوں کی سر زمین ہے‘‘-[5]

آئیں! ہم بلوچستان کے حسن و جمال کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں:

بلوچستان کی ساحلی پٹی:

بلوچستان کا ساحلی علاقہ (coastal area)جو 750 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے، کراچی کے قریب حب کے مقام سے لے کر پاک ایران سرحد تک گوادر کا سلسلہ اسی ساحلی پٹی پر محیط ہے جوکہ کُل پاکستانی ساحلی پٹی کا 80 فیصد بنتا ہے- بلاشائبہ یہ ساحلی علاقے سیاحوں اور سیرسپاٹوں کیلئے بہترین جگہیں ہیں-[6]

گوادر:

 سی پیک کا معاملہ ہو یا ون بیلٹ ون روڈ کا پلان ہو، پاکستانی معیشت کی ترقی کو فروغ بخشنے میں گوادر ایک اہم کڑی ہے اور پاکستان کو خلیجی ممالک سے بحیرۂ عرب کے توسل سے جوڑتی ہے- ہواؤں کے دروازوں کے نام سے موسوم اس شہر کو پاکستان کا مستقبل کہا جارہا ہے،کراچی سے 630 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کا یہ ساحلی علاقہ اپنی خوبصورتی اور باکمال ٹیرین کی وجہ سے لوگوں کی پسندیدگی کا گڑھ رہا ہے-ابتداء میں یہ پاکستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ اومان کی ملکیت تھا جسے بعد میں 3 ملین ڈالرز کےعوض پاکستان نے خریدا تھا- یہ شہر جہاں معاشی حب بنتا جارہا ہے وہیں اس کے ٹیرین کے باعث یہ چولستان، جھل مگسی اور حب کی طرح موٹر اسپورٹس کا ڈیرہ بھی بن چکا ہے- ریتلا اور پتھریلا راستہ، ریگستانی طرز کی زمین اس کے قدرتی حسن کا منہ بولتا ثبوت ہے-[7]

مولا چٹوک:

کراچی سے گیارہ گھنٹے کی مسافت پر موجود بلوچستان میں چھپی ہوئی ایک جنت آتی ہے، جسے ’’وادی مولا‘‘[8] کہا جاتا ہے- خضدار سے ایم-8 کے راستے سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر دشوار مگر حسین ترین سفر طے کرکے مولاچٹوک پہنچا جاتا ہے-مولا بلوچستان کا ایک پرامن علاقہ ہے- جہاں جگہ جگہ پتھریلا اور ریتلا راستہ جھرنیں اور دھاریں مسافر کو لطف اندوز کرتی ہیں وہیں سیاہ سفید اور سرمئی پہاڑ اورچرواہوں کی آمد و رفت قدرتی احساس سے دل کو پُر کردیتے ہیں- چٹوک کے آبشار کو سفید کھڑی چٹانوں نے گھیر رکھا ہے، ان چٹانوں کی خوبصورتی کو بیان کرنا دشوار ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی ماہر مصور نےازخود انہیں تراشا ہو، ان چٹانوں کے درمیان میں موجود آبشار اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ جیسے کسی کوزے میں موجود نیلے رنگ کا عمدہ مشروب موجود ہو- پانی کے اندر غوطہ زن ہوں تو اندر موجود بڑے پتھروں کا بوسہ لیتی سورج کی کرنیں کیا ہی کمال کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں، آس پاس کے پتھروں پر اگی گھاس جسن کے درمیان سے پانی ٹھاٹھے مارتا اور بہتا ہوا چشمے میں گرتا ہے اس جگہ کے حسن میں بخوبی اضافہ کرتے ہیں- کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ جگہ بلوچستان میں چھپی ہوئی ایک جنت ہے جس کی چٹانیں اور آبشاریں مرثیہ گو ہیں کہ انہیں سیاحت پسند لوگ ان کا رخ کیوں نہیں کرتے-

دَران کا ساحل:

جِیونی شہر سے آگے کچی سڑک سے ہوتے ہوئے، وسیع و عریض نیلے آسمان تلے دران گاؤں آتا ہے جس کا ساحل سنہری مٹی، سیاہ گندمی کھڑے پہاڑ اور نیلے پانی کا امتزاج ہے- یہاں سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس خوبصورت مقام کے قریب میں جنگِ عظیم دوم کے باقیات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں- کہا جاتا ہے کہ اس ساحل پر کچھووں کی کثرت ہے- یہ مقام غروبِ آفتاب کے منظر کے حوالے سے بھی کافی مقبول ہے-[9]

گڈانی کا ساحل:

حب چوکی سے تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر پر ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کا نام گڈانی ہے- اس سے متصل بین الاقوامی طرز کا صاف ستھرا، نہایت دلفریب اور قدرتی حسن سے مالامال ساحل ہے جوکہ پاکستانی معیشت میں اہم کردار رکھتا ہے- ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے استفادہ حاصل کرتی ہے جبکہ سیاحوں کیلیے یہ کسی بین الاقوامی ساحل سے کم نہیں ہے- کوڑا کرکٹ سے قریب قریب پاک صاف ساحل جس کی سفید ریتلی مٹی اور شفاف نیلا پانی اِسے باقیوں پر امتیاز بخشتے ہیں-بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتا پانی بھی اس جگہ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں- یہ ساحل صرف سیاحوں کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ یہ ایک شِپ بریکنگ یارڈ بھی ہے جہاں ایکسپائیر شدہ جہاز لائے جاتے ہیں اور ان کی کٹوتی کی جاتی ہے-[10]

پِشکان کا ساحل:

پِشکان، گوادر شہر سے 40 کلو میٹر پر واقع ایک ساحلی علاقہ ہے- ساحلی پٹی ہونے کی وجہ سے یہاں سڑک کا سفر مزید دلچسپ بن جاتا ہے جہاں ایک جانب سمندر اور دوسری جانب پہاڑی سلسلے کا دلفریب منظر سفر میں چار چاند لگادیتا ہے-یہاں کے اکثرلوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے ،شام کے وقت آتی ہوئیں لانچیں اور گدھا گاڑی پر سوار مچھلیوں کی ٹوکریاں یہاں کا روز کا معمول ہے- سمندر کا رخ کرتے مہمان پرندے، ریتلی زمین جس پر جگہ جگہ پر جھاڑ اگی ہوئی نظر آتی ہیں، خوشنما راستے،  نیلگوں آسمان سے متصل نیلا سمندر اس جگہ کو دیدہ زیب بنادیتے ہیں-[11]

بوجھی کوہ:

سپٹ ساحل یا بوجھی کوہ کراچی سے 220 کلو میٹر اور اوتھل سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے- جہاں تک نگاہ جائے سمندر اور اس کی موجیں، دوسری جانب دیکھیں تو بڑے بڑے پہاڑ اور ان میں قدرتی غاریں دکھائی دیتی ہیں- صرف یہی نہیں اس ساحل تک پہنچنے کا سفر ہی کسی خوبصورتی سے کم نہیں- ریگستانی علاقہ، سڑک کی دونوں جانب میانہ درخت،سفید ریت اور دور تک پھیلی ہوئی زمین راستے میں مسافر کی دلچسپی بنائے رکھتی ہیں- یہ ساحل کیکڑوں کے حوالے سے مشہور ہے- سپٹ گاؤں کے عوام کا ذریعہ معاش بھی انہی کیکڑوں کے شکار سے چلتا ہے-

بلوچستان کا پہاڑی سلسلہ اور حسین وادیاں:

زیارت:

قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پسندیدہ شہر زیارت جسے قدرت نے مختلف طرح کے حسن وجمال سے نوازا ہے- جُنیپر کی حسین وادیاں، زرغون پہاڑی سلسلہ، بڑے بڑے گھنے صنوبر کے جنگلات، خوبصورت باغات، خطرناک اونچائیاں اور کھائیاں-تفریحی و تاریخی مقامات سے بھرا ہوا یہ شہر پاکستان کے بقیہ شہروں میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے-[12]کوئٹہ سے پونے تین گھنٹے کی مسافت پر یہ خوش افزاء شہر موجود ہے جو اپنے آنے والے مسافروں کو منزل سے قبل راستوں کی حسین منظر نگاری سےپُر لطف کرتا ہے- شاید ان راستوں کی خوبصورت بناوٹ اور قدرتی مناظر کو قلم بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ وہ دور تک پھیلا ہوا نیلگوں آسمان اور اس میں بکھرے بادلوں کے ٹکڑے، زیرِ فلک سیاہ سفید رنگ کے پہاڑی سلسلے، کچی پکی سڑکیں، مٹی کے چھوٹے بڑے بگولے اور سرسبز و شادابی مسافر کی طبیعت کو باغ باغ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور وہ ان مناظر کو ہوبہو بیان کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے- زیارت شہر میں چیری اور سیب کے باغات کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں- بڈغور(بڑی چیری)،ترش سپید چیری، ایرانی چیری،بہ بہ یئی چیری وغیرہ جیسی اقسام بھی یہاں پائی جاتی ہیں-

اگر زیارت کا حسن دوبالا کرکے دیکھنا ہو تو مسافروں کو چاہیئے کہ سردیوں میں اس شہر کا رخ کریں جب یہاں درخت پہاڑ اور گھر سب برف کی چادر اوڑھ لیتے ہیں- یہاں پر موجود صنوبر کے درخت کئی ہزار ایکڑ تک پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا میں کیلیفورنیا کے بعد دوسرے نمبر پر قدیم جنگلات میں ان کا شمار ہوتا ہے- جبکہ سرد موسم میں یہاں مختلف انواع کی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں جو افادیت کے ساتھ ساتھ دکھنے میں بھی باکمال ہوتی ہیں-

زرزی پارک سیاحوں کیلیے ایک موزوں مقام ہے جہاں وہ زیارت شہر کی خوبصورتی سے مستفید ہوسکتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ قدرت کے حسین مناظر دیکھنے کیلئے پروسپیکٹ پوائنٹ سے بہتر کوئی جگہ نہیں جہاں اونچائی سے دور تک پھیلے جنگلات،حسین وادیاں، بڑے بڑے اور اونچے پہاڑ اور کھائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور مویشیوں کی موجودگی انسان کو قدرت سے مزید قریب تر کر دیتی ہے-

قائد اعظم ریذیڈنسی کا اطراف چنار کے درختوں سے چھپا رہتا ہے اور اس کے سامنے موجود خوبصورت باغ ہے جہاں آپؒ اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ چہل قدمی کیا کرتے تھے- یہ مقام نہایت دل سوز اور پرسکون ہے جہاں قدرت کے عجائب دیکھ کر انسان مسرت محسوس کرتا ہے-

شابان:

شابان،درہ زرغون کے دامن میں موجود، کوئٹہ کے مشرق میں ایک پتھریلا، میدانی اور پہاڑی علاقہ جہاں زیارت کے بعد کثیر تعداد میں صنوبر کے جنگلات پائے جاتے ہیں- بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں اس کا شمار ہوتا ہے-11738  میٹر اونچی، بلوچستان کی سب سے بلند ترین چوٹی ’’لوئے سر نیکان‘‘ بھی یہیں موجود ہے-اس علاقے میں غلہ بانی اور کھیتی باڑی بھی یہاں کی انفرادیت کو نمایاں کرتے ہیں-شابان میں طارق آباد کا علاقہ باغات سے بھرا ہوا ہے جہاں پہاڑوں پر بھی شادابی دکھائی دیتی ہے جبکہ تورشور کے علاقے کے جھرنے موسمِ سرما میں کئی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں-[13]

ہنگول نیشنل پارک:

تین ڈسٹرکٹ کو آپس میں جوڑنے والا ہنگول نیشنل پارک  6100 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا، قدرتی حسن سے مالامال ، بلوچستان کےجنوب مغرب میں واقع ہے- 250 انواع کے پودے، 300 کے قریب جانوروں کی اقسام، 35 قسم کے پرندے اب تک وہاں سے دریافت کیے گئے ہیں جبکہ پرندوں میں سے 14 ایسی اقسام بھی پائی گئیں ہیں جو نایاب ہیں- دریائی مچھلیوں کی بھی کثیر تعداد یہاں پائی جاتی ہے-[14]اس پارک کے احاطے میں تین مقامات شامل ہیں جو قدرت کا حسین شاہکار ہیں-

کند ملیر:

 دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک ساحل بلوچستان میں واقع ہے جسے ’’کند ملیر‘‘[15]کہا جاتا ہے - یہ ایک صحرائی ساحل ہے اور اسی لیے یہ سیاحوں میں مقبول ہے کیونکہ یہاں سمندر کے ساتھ چھوٹے بڑے پہاڑ اور صحرائی زمین بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو اپنے آپ میں ہی کمالِ اتم ہے-

پرنسس آف ہاپ:

بحیرۂ عرب سےچلتی تیز ہواؤں نے چٹانوں کو اس قدر مزین کیا ہے ،گویا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے اپنے ہاتھوں سے ان چٹانوں کو تراشا ہو- ’’پرنسس آف ہاپ‘‘[16] ایک ایسی ہی چٹان ہے جو مٹی اور پتھروں کے پہاڑوں کے درمیان کھڑی ہوئی ہےاور اس جانب آنے والے ہر انسان کی نگاہ کو اپنی طرف گامزن کرلیتی ہے-

بلوچستان کا شیر(Balochistan Sphinx):

مصر کے عجائبات اور احرامِ مصر سے تو سب ہی واقف ہیں لیکن اُس طرز کا چٹانوں کا بنا قدرتی عجوبہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی موجود ہے جسے Balochistan Sphinx یا بلوچستان کا شیر[17]کہا جاتا ہے -

جھل مگسی:

گوادر شہر کی طرح کوئٹہ کے شمال میں پانچ گھنٹے کی مسافت پر بلوچستان کا ایک تاریخی شہر جھل مگسی آتا ہے- جو آف روڈ جیپ ریلی کی وجہ سے مشہور ہے-جھل مگسی جاتے ہوئے رستے میں ریگستانی علاقہ کوٹڑا آتا ہے جہاں قدیم بازار اور عمارتیں موجود ہیں جبکہ آبادی نہ ہونے کے برابر ہے-مزید آگے پیر چھتل شاہ نورانی(پیرچھتہ) کا علاقہ آتا ہے جسے کھجوروں کا نخلستان بھی کہا جاتا ہے- یہاں موجودچشمے میں سنہری رنگت والی بڑی بڑی مچھلیاں موجود ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں-ہر طرف آپ کو کھجوروں کے بڑے بڑے درخت دکھائی دیتے ہیں جبکہ یہاں کا پُر سکون ماحول طبیعت ہری کردیتا ہے- جھل مگسی آتے ہوئے اس کے شمال میں واقع شہرِخموشاں اپنے قدیم قبرستان کی وجہ سے مشہور ہے- حدِ نگاہ پھیلی پتھریلی اور ریتلی زمین اور نیلگوں آسمان انسان کو حیران کر دیتا ہے جبکہ وہاں موجود بوسیدہ مقبرے اس شہر کی تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں-

جھل مگسی شہر اونچے اونچے پہاڑی سلسلے، خوبصورت چشمے اور جھرنے، نخلستان اور ریگستان کا مرکب ہے- اگر کسی کو اس شہر کا حسن دیکھنا ہے تو لازم ہے کہ وہ اس شہر کے سب سے حسین مقام یعنی ’’پری جھل‘‘[18]کی سیر کرے- راستے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے سجے ہوئے جن میں پانی رواں ہے، سامنے بڑے بڑے پہاڑ ، سیاہ و سفید رنگ کی چٹانیں، کائی جمی ہوئیں ڈھلانیں ، شور و غوغا کرتے آبشار اس جگہ کو جنت بنائے ہوئے ہیں-

بلوچستان کی جھیلیں اور چشمے:

وائی، لسبیلہ:

کراچی سے 175 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد بلوچستان میں پوشیدہ کیمپنگ اور پکنک کا ایک بہترین مقام بنام ’’وائی‘‘ آتا ہے- لسبیلہ میں موجود یہ خوبصورت علاقہ میدانی ہے اور یہاں کھجور کے درختوں کی اکثریت پائی جاتی ہے-چھوٹے بڑے پہاڑوں کا ایک سلسلہ بھی ملتاہے جبکہ اس علاقہ کو مزید سنوارنے میں وائی کے بہتے ہوئےچشمہ کا اہم کردار ہے- جس میں بڑی تعداد میں مختلف مچھلیوں کا ڈیرہ ہے- اس کے علاوہ کھجوروں کے درخت کے عین وسط میں نیم گہرا تالاب سیاحوں کے لیے دلنشین ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں موجود چھوٹی چھوٹی مچھلیاں مفت میں ’’فِش پیڈِیکئیور‘‘ کرتی ہیں- یہ مقام وائیلڈ فوٹوگرافی کے لیے بھی ایک موزوں جگہ ہے-[19]

پری چشمہ، ہرنائی:

ہرنائی شہر سے صرف 3 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے سائے تلے، مختلف ضخامت کے پتھروں اور جگہ جگہ موجود گھانس اور پودوں سے مزین ایک خوبصورت جھرنا موجود ہے- جس کا نام ہی اس کے سحر کو طاری کرنے کیلئے کافی ہے- پری چشمہ[20] ایک گہرا چشمہ ہے جس کا پانی نہایت صاف ہے- یہ چشمہ دو حصوں میں منقسم ہے پہاڑ کے اوپر سے جھرنے کی شکل میں بہتا چشمہ، نیچے ایک اور چشمہ بناتا ہے جس کی گہرائی میں بڑے بڑے پتھر ہیں جبکہ ان میں موجود مچھلیاں اس کی خوبصورتی کو دو بالا کردیتی ہیں- اکثر لوگ تیراکی کے دوران اس چشمے میں موجود پتھروں میں پھنس جانے کے باعث جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں- کئی سیاح اس مقام کی خوبصورتی کے باعث یہاں سیر و تفریح کیلئے آتے رہتے ہیں جبکہ یہاں کے عوام کا گلا ہے کہ قدرت کے اس حسین شاہکار کی ترویج میں حکومت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے-

ہنہ اوڑک، کوئٹہ:

کوئٹہ شہر سے 20 کلو میٹر کی مسافت پر ہنہ جھیل پڑتی ہے-اس جھیل کا شمار پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے کیونکہ اس جھیل کو چاروں جانب سے بڑے بڑے پہاڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے - یہ جھیل 1894ء میں برطانوی دور میں بنائی گئی تھی- 1818 ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس جھیل میں 3 کروڑ 20 لاکھ پانی ذخیرہ کرنے کی وسعت ہے-[21]بارشوں کے کم ہونے کے باعث اکثر یہ جھیل سوکھ جاتی ہے اور بنجر زمین سامنے آجاتی ہے- اس کے کچھ فاصلہ پر پہاڑی آبشار کا دل لبھالینے والا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جسے دیکھ کر انسان قدرت کے حسن پر رشک کرنے لگتا ہے- برف کی طرح ٹھنڈا پانی پہاڑوں سے بہتا ہوا شہر کی جانب آتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو سیراب کرتا ہے- اونچے اونچے پہاڑ ، ہری بھری زمین اور شور مچاتا پانی کا بہتا ہوا ریلہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ کر لے آتا ہے-

پیر غیب کا آبشار، بولان:

کوئٹہ شہر سے 75 کلو میٹر کی مسافت پر موجود ، درہ بولان کے حسین پہاڑی سلسلوں کو پار کرتے ہوئے پیر غیب کا ہرا بھرا علاقہ شروع ہوتا ہے-جہاں قدرت کے حسین ترین مناظر میں سے ایک دلفریب منظر نظر آتا ہے- چاروں اطراف بھورے پہاڑ اور ان کے درمیان لمبے سبز درختوں سے ڈھکا ہوا نیلا شفاف اور ٹھنڈے پانی کا بہتا آبشار اور قریب میں ہی بڑے چھوٹے پتھروں کے بیچوں بیچ بہتا ہوا پیر غیب کا چشمہ آتا ہے- اللہ پاک کی قدرت کا یہ حسین اختلاط دیکھ کر بے ساختہ لبوں پر اس کی شانِ کبریائی آجاتی ہے-[22]

بلوچستان میں موجود آثارِقدیمہ:

مہرگڑھ:

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان کو قدرت نے مختلف النوع جمال سے سرفراز کیا ہے لیکن دوسری جانب بلوچستان کی سرزمین دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی یاد تازہ کرتی ہے- خواہ وہ قدیم پتھروں کے زمانے کی نیولِتھِک تہذیب ہویا مہذب یونان کی ہیلِنِسٹک تہذیب- بلوچستان میں ان آثارِ قدیمہ کی یادگار اب بھی محفوظ ہیں[23] اور بولان پاس کے قریب واقع مہرگڑھ کا شہر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں کھنڈرات، چٹان، پہاڑ ، ہریالی اور قدیم نظامِ معاشرت کا امتزاج اُس شہر کا معکس ہے-[24]

چندراگپ کمپلکس:

کراچی سے کوئی 200 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہنگول نیشنل پارک کے آس پاس قدرت کا ایک عظیم شاہکار موجود ہے جسے ہم آتش فشاں کہتے ہیں-ان آتش فشاؤں میں سےلاوا نہیں بلکہ گیلی کیچڑ والی مٹی ہے-بلوچستان (ہنگول) میں تقریباً 21 کے قریب ایسے مٹی کے وولکینوز ہیں جن میں سے سب سے معروف چندراگپ کمپلکس ہیں جن میں سے اکثر ابلتے رہتے ہیں اور ان میں سے میتھین گیس کا کافی اخراج ہوتا رہتا ہے- ہندو مذہب میں لوگ اسے اپنے دیوتا کی رہائش گاہ سمجھتے ہیں اور چندرگپ میں ناریل چڑھانے بھی آتے ہیں- یہ جگہ آف روڈرز کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہے- موزوں ٹیرین کے ساتھ قریب میں موجود نیلا سمندر اور جنگلی حیات اس جگہ کو کمال کا حسن بخشتی ہے- [25]

پنجگور:

کوئٹہ کے جنوب مغرب میں 555 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک تاریخی شہر پنجگور ہے جسے کھجوروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے- پنجگور کا مطلب پانچ قبریں ہیں جن کی وجہ سے اس شہر کا نام یہ پڑا لیکن تاریخ اس حوالے سے کچھ ٹھوس بات نہیں بتاتی ہے کہ آیا یہ قبریں کن کی ہیں-اس شہر میں پرانی قبروں اور تاریخی مقامات کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن عدم توجہی کے سبب یہ آثارِ قدیمہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو رہے ہیں-اس شہر میں کھجوروں کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں درخت موجود ہیں اور یہ کھجوریں اپنے ذائقہ کے اعتبار سے بے حد شیریں ہوتی ہیں جن کی وافق مقدار بیرونِ ملک سپلائی کی جاتی ہے- مزار خدابدن کی باقیات اور بندِ گلر کے نام سے ایک پرانا ڈیم اس شہر کی تاریخی اہمیت بڑھادیتا ہے-[26]

بلوچستان میں موجود معدنیات:

سونا چاندی کے ذخائر:

چاغی ڈسٹرکٹ میں ’’رکودک‘‘ نامی دنیا کی پانچویں سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان موجود ہے جس میں 5 کھرب ڈالر کی مالیت کے 5 ارب 90 کروڑ ٹن کے حساب سے ذخائر (تانبہ،سونا،چاندی و دیگر معدنیات)موجود ہیں-[27] پنجگور میں بھی سونے (auriferous)کےذخائر پائے جاتے ہیں-

گیس کےذخائر:

لودی،کوئٹہ،زرغون اور کئی مزید علاقے گیس کے ذخائر سے مالامال ہیں جبکہ ڈیرہ بگٹی کا علاقہ سوئی گیس کےکثیر ذخائر کی وجہ سے مشہور ہےجہاں سے گیس تقریباً ملک کے اکثر حصوں میں فراہم کی جاتی ہے-

نایاب پتھر:

بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے کئی قیمتی اور بیش بہا پتھر نکلتے ہیں- وڈ سے تھوڑی سی مسافت پر سرو نہ کا علاقہ آتا ہے جہاں، ہرے گارنیٹ اور ہیرے وغیرہ موجود ہیں-تافتان اور خاران میں بروکائیٹ، کرسٹل نما ’’ٹائی ٹینئیم ڈائی آکسائیڈ‘‘ پائے جاتے ہیں- یہ بروکائیٹ پتھر اپنی نسل کے قیمتی اور نایاب پتھر مانے جاتے ہیں- چمن میں ہیروں کےذخائر موجود ہیں- چاغی میں نیلے اور کالے رنگ کے نایاب پتھر، ہرے رنگ کے چمکدار اور شفاف مالیکائیٹ پتھر موجود ہیں-قلات میں فلورائیٹ اور بھورے رنگ کے گرنیٹ موجود ہیں جبکہ لورالائی میں جامنی اور سفید رنگ کے نہایت خوبصورت ہیرے نما پتھر پائے جاتے ہیں-[28]

اختتامیہ:

طوالت کے پیشِ نظر بلوچستان کے فقط کچھ ہی مقامات کا ذکر اس مضمون میں شامل کیا ہے جبکہ کئی حسین مقامات کا تذکرہ اب بھی باقی ہے-بلوچستان کے خوبصورت علاقوں کی سیر کو آنے والوں کو نہ صرف اس خطے کوعطاکردہ قدرت کا حسن دیکھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ یہاں کے مہمان نواز لوگوں کی دریا دلی اور مکر ان کی مختلف الاقسام مچھلیاں، زیارت کا لذیذ روش اور قہوہ، کوئٹہ کے میوہ جات، اوڑک کے سیب،گوادرکی سجی، جھل مگسی کی مندی اور بھی کئی ذائقہ دار لوازمات کھانے کا موقع ملتاہے-

بطور پاکستانی ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا کروڑہا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں بلوچستان کی صورت میں قدرت کے بیش قیمتی خزانوں اور بےمثال حسن سے نوازا ہے-اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خطے پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور حاسدین اور چال بازؤں کی حرکتوں سے اس خطے کو محفوظ فرما کر پاکستان کو بلوچستان کے ذریعے مزید ترقیاں عطا فرمائے- آمین!!

 

٭٭٭

[1]https://www.pakistanmdtf.org/balochistan.html

[2]http://balochistan.gov.pk/explore-balochistan/about-balochistan/

[3]https://maps.google.com/maps/ms?ie=UTF8&t=p&oe=UTF8&msa=0&msid=214403744370716003804.0004daf28003921380d72

[4]https://www.youtube.com/watch?v=DIqsBDpwHH8

[5](بلدیہ کوئٹہ کے شہری سپاسنامہ کے جواب میں تقریر - کوئٹہ 15 جون 1948ء)

[6]http://emergingpakistan.gov.pk/travel/place-to-visit/balochistan/balochistan-coastline/#:~:text=The%20Balochistan%20coastline%20extends%20over,and%20dances%20are%20equally%20fascinating.

[7]http://emergingpakistan.gov.pk/travel/place-to-visit/balochistan/gwadar/

[8]http://rnbtours.com/tour/moola1/#:~:text=Moola%20is%2011%20hours%20from,is%20widely%20used%20for%20irrigation.

[9]https://www.discover-pakistan.com/daran-beach.html

[10]https://www.localguidesconnect.com/t5/Share-Your-Photos-and/A-day-trip-to-magnificent-Gadani-Beach-Balochistan-Pakistan/td-p/905619

[11]https://www.youtube.com/watch?v=r4W2-pqFx6o https://www.youtube.com/watch?v=r4W2-pqFx6o

[12]https://www.discover-pakistan.com/ziarat.html

[13]http://thebalochistanpoint.com/shaban-a-new-wonder-land-in-balochistan/

[14]https://en.wikipedia.org/wiki/Hingol_National_Park

[15]https://kundmalir.com/

[16]https://www.discover-pakistan.com/princess-of-hope.html

[17]https://www.ancient-origins.net/ancient-places-asia/sphinx-balochistan-0010882

[18]https://www.youtube.com/watch?v=VBxJNZBuR0I

[19]https://azmepakistan.pk/videos/waai-%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-lasbela-beautiful-and-hidden-place-of-balochistan-pakistan-vlog-11/

[20]https://roadies.pk/places/pari-chashma/

[21]https://www.youtube.com/watch?v=unOeyqjHQQ4

[22]https://www.discover-pakistan.com/pir-ghaib.html

[23]https://voiceofbalochistan.pk/blogs/mehrgarh-pakistans-oldest-civilization/

[24]https://www.dawn.com/news/1316715

[25]http://www.karachiglidingclub.com/events/go2mudvolcanoes/

[26]https://bhc.gov.pk/district-judiciary/panjgoor/introduction/history

[27]https://www.thenational.ae/business/pakistan-s-500bn-gold-mine-kept-under-wraps-1.606927#:~:text=Reko%20Diq%20is%20a%20copper,provincial%20government%20and%20the%20miners.

[28]https://en.wikipedia.org/wiki/Gemstones_of_Pakistan