بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

آج حکیم الامت کے دعائیہ کلام میں غوطہ زن ہوکر کچھ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہرِ خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
زمانۂ قدیم میں جب کوئی شخص بیمار پڑ جاتا تو اس کو کسی طبیب کے پاس لے جایا جاتا، جو مریض کی نبض پر ہاتھ رکھ اس کی بیماری تک پہنچ جاتا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ نبض آج بھی ہے، مگر نبض شناس کوئی نہیں۔ کیا یہ کوئی فن تھا، یا پھر عطائے خداوندی تھی؟ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کوئی بھی نامور حکیم چاہے جس بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کا اپنے مذہب سے گہرا تعلق ہوتا۔ اس تعلق کی بنیاد پر اس کی چھٹی حس ضرورت سے زیادہ کام کرتی تھی۔ کیوں کہ ان کا دل نفسانی خواہشات سے ہٹ کر اپنے کام میں غرق ہو جاتا، جو ان کو اس میدان کا فاتح بنا دیتا۔
زمانہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کرتا رہا، ہر میدان میں جدت آتی رہی، اسی طرح حکمت کی جگہ ایلوپیتھک علاج آ گیا۔ حکمت کو ڈبونے میں اپنوں اور اغیار کا حصہ برابر کا ہے۔ ماسوائے چند ایک کے اکثریت نے حکمت کے طالبان کو نظر انداز کر کے اپنے عزیزوں کو نوازنے کی ناکام کوشش کی، جو کہ نہ تو اس کی طلب رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے اہل تھے جبکہ اغیار نے ایک سوچی سمجھی ترکیب کے تحت حکمت کو بدنام کر کے ہمیں ایک نئی راہ پر گامزن کردیا۔ بظاہر معقول نظر آنے والے اس طریقہ علاج کا مکمل دارومدار لیبارٹری ٹیسٹوں پر ہے، اس کے بعد ڈاکٹر کی عقلمندی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ طب کے شعبے میں اتنی ترقی ہونے کے باوجود مریض کو راحت ملنا اتنا آسان نہیں، اسے بے یقینی کی کیفیت ملتی ہے، البتہ ڈاکٹر اور ہسپتال مالکان کے امیر ہونے کی ضمانت سو فیصد ہے۔
ہمارے حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جب اپنی قوم کی نبض پر ہاتھ رکھا تو اس کے مرضِ کُہن کی نہ صرف تشخیص کی، بلکہ اس کا مکمل علاج بھی بتایا۔ نورِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور وحدتِ خدا کی دولت سے مالامال دلوں کی مالک قوم کو کہیں مادیت پرستی پر لگا دیا گیا، توکل کے پیروکاروں کو ظاہر پرست بنا دیا گیا، عشقِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے لبریز قوم کی واحدانیت کو جغرافیائی حدود میں قید کر دیا گیا۔ مغرب نے اپنے شیطانی حربے استعمال کرتے ہوئے، سب سے پہلے امتِ مسلمہ کو ان کے مرکز سے بیزار کیا، پھر جدا کیا۔ دشمن قوتوں نے مسبب الاسباب کو بھلا کر اس قوم کو اسباب کے پیچھے لگا دیا۔ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی نظم میں دعا کی ہے کہ اے رب! اپنے رستے سے ہٹ جانے والے مسلمان کو پھر اسلام کے رستے پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرما اور جغرافیائی حدود میں الجھ کر رہ جانے والے مسافر کو ان حدود سے نکل کر ایک بار پھر دنیائے عالم پر حکومت کرنے کی ہمت دے۔
جبکہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں ارشادِ ربانی ہے کہ "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت پڑو" اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔" آج اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تفرقہ بازی صرف سنی شیعہ یا صرف کسی مسلک سے وابستہ ہونے کا نام نہیں بلکہ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
آج ہماری پہچان اپنے ممالک یا قوم کے ساتھ ہے، کوئی عربی، کوئی پنجابی، کوئی شامی تو کوئی کسی مذہبی فرقے کا علمبردار ہے۔ ان لسانی، علاقائی، مذہبی اور جغرافیائی حیثیتوں سے بالا تر ہو کر ہمیں قائدِ اعظم کے بتائے گئے اصول ایمان اتحاد اور تنظیم کو اپنا کر اپنی حیثیت بحال کرنا ہوگی، ورنہ ہم تباہی کو اپنا مقدر بنا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے مسلمان قبیلے کو عزّت بخشی ہے۔ جس کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں، بلکہ اللہ کے نام کی للکار کو دنیا کے ہر کونے میں پھیلانے کا ذمہ ان کے سر پر ہے۔ آج ہمیں واپس اپنے اصل کی طرف پلٹنا ہوگا، تاکہ کامیابی ہمارے قدم چومے۔ اس کا واحد راستہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کی شریعت کا خود پر نفاذ ہے۔